دمہ كے ليے استعمال كى جانے والى سپرے كى شكل ميں دوائى سے روزہ كيوں نہيں ٹوٹتا، برائے مہربانى جواب تفصيل سے ديں ؟
دمہ كى سپرے استعمال كرنا
سوال: 124204
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
دمہ كے ليے سپرے كى ڈبى ايك ايسى دوائى ہے جس ميں سائل مادہ تين عناصر پر مشتمل ہوتا ہے اور وہ يہ ہيں: كيمائى مادہ، پانى اور آكسيجن.
جب اس سپرے كو دبا كر نكالا جاتا ہے تو اس سے دھويں كى شكل ميں دوائى خارج ہوتى ہے، جب مريض اس كود باتا ہے تو يہ سپرے اور دوائى اس كے سانس كى ناليوں ميں داخل ہوتى ہے، ليكن اس كا كچھ حصہ منہ ميں حلق كے شروع ميں ہى رہ جاتا ہے، اور قليل سى مقدار اس كے پھيپھڑوں ميں چلى جاتى ہے.
كچھ معاصر علماء كا كہنا ہے كہ يہ سپرے استعمال كرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، ان كا كہنا ہے كہ: كيونكہ يہ سپرے جن مواد پر مشتمل ہے وہ مواد منہ كے ذريعہ معدے تك جاتے ہيں تو اس طرح اس سے روزہ ٹوٹ جائيگا.
اور اكثر معاصر علماء كہتے ہيں كہ اس سپرے سے روزہ نہيں ٹوٹتا، اور يہى قول صحيح ہے انہوں نے كئى ايك دلائل سے استدلال كيا ہے:
1 ـ اصل ميں روزہ صحيح ہے، اور اس اصل سے صرف يقين ہونے پر ہى نكلا جا سكتا ہے، اور اس سپرے كى پھوار كا معدے ميں جانا مشكوك ہے، يہ معدے ميں جا بھى سكتى ہے اور نہ بھى جاتى، كيونكہ اصل ميں يہ مادہ پھيپھڑوں اور سانس كى ناليوں ميں جاتا ہے، ليكن يہ معدے ميں بھى جا سكتا ہے، تو اس احتمال كے ساتھ روزہ نہيں ٹوٹ سكتا، پہلے قول كا ان علماء نے اس دليل كے ذريعہ جواب ديا ہے.
2 ـ فرض كر ليں كہ اس دوائى كا كچھ حصہ بالفعل معدے ميں چلا جاتا ہے تو يہ معاف كردہ ہے، اور اس سے روزہ نہيں ٹوٹتا اور اس كو انہوں نے كلى اور مسواك پر قياس كيا ہے.
كيونكہ كلى كا كچھ پانى روزے دار كے منہ ميں باقى رہ جاتا ہے، اور اس ميں سے كچھ نہ كچھ معدہ ميں چلا جاتا ہے، اس ليے اگر كوئى شخص ايسے پانى سے وضوء كرے جس ميں كوئى مواد ملا ہوا ہو، تو يہ مادہ كچھ دير بعد معدۃ ميں ظاہر ہو جائيگا، جو اس كو متاكد كرتا ہے كہ كلى كا پانى معدہ ميں جاتا ہے، ليكن يہ بہت ہى قليل مقدار ميں ہوتا ہے جو شريعت نے معاف كيا ہے، اور كلى كے باوجود اس كے روزے كو صحيح كا حكم ديا ہے، اور دمہ كى سپرے سے معدہ ميں جانے والى دوائى بہت ہى قليل مقدار ميں ہوتى ہے ـ يہ بھى اس وقت اگر يہ معدہ ميں جاتى ہو تو پھر ـ بلكہ كلى كے پانى سے بھى كم مقدار ميں تو اس طرح يہ بالاولى روزے كو نہيں توڑتا.
اور مسواك ميں ايسا مواد ہوتا ہے جو لعاب كے ساتھ مل كر حلق اور پھر معدہ ميں جا سكتا ہے، ليكن شريعت نے اسے بھى معاف كيا ہے اور اسے روزہ توڑنے والى اشياء ميں شامل نہيں كيا، كيونكہ يہ بہت قليل اور غير مقصود ہے.
تو اسى طرح دمہ كى سپرے سے معدہ ميں جانے والى چيز بھى بہت قليل مقدار ميں ہوتى ہے اور اس كا معدہ ميں لے جانا مقصود نہيں ہوتا، تو اس طرح مسواك پر قياس كرتے ہوئے يہ بھى روزہ نہيں توڑےگى.
اس سے ظاہر ہوا كہ دوسرا قول قوى ہے، اور ہمارے معاصر علماء كرام ميں سے يہى قول اختيار كرنے والوں ميں شيخ عبد العزيز بن باز، اور شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ اور عبد اللہ بن جبرين حفظہ اللہ اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام شامل ہيں، ہم نے ان كا فتوى سوال نمبر ( 37650 ) كے جواب ميں نقل كيا ہے اس كا مطالعہ كريں.
ديكھيں: مجلۃ مجمع الفقہ الاسلامى عدد نمبر ( 10 ) اس ميں معاصر اشياء ميں سے روزہ توڑنے والى اشياء كے متعلق كئى ايك موضوع بيان ہوئے ہيں.
اور مفطرات الصيام المعاصرۃ تاليف ڈاكٹر احمد الخليل ( 33 – 38 ) كا بھى مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات