ميرى منگيتر كا والد فوت ہو گيا ہے اور اس كےگھر والے غمزدہ ہيں والدہ عدت گزار رہى ہے، عقد نكاح كے وقت والدہ كى عدت كے تين ماہ گزرے ہونگے، كيونكہ عقد نكاح كے ايام والد كى زندگى ميں طے ہوئے تھے كيا ميرے ليے بغير خوشى كے مظاہر عقد نكاح كرنا جائز ہے يا كہ اسےمؤخر كر دوں، يہ علم ميں رہے كہ ميں اپنے ملك سے دور ہوں اور ملازمت كى بنا پر آئندہ وقت ميں عقد نكاح كا وقت مقرر كرنا مشكل نظر آتا ہے ؟
لڑكى كا والد فوت ہو گيا اور والدہ عدت ميں ہو تو كيا نكاح ہو سكتا ہے ؟
سوال: 125792
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس لڑكى كے ساتھ آپ كا نكاح كرنا جائز ہے چاہے لڑكى كى ماں عدت ميں ہى كيوں نہ ہو، اس ليے كہ شريعت مطہرہ ميں اس كى ممانعت نہيں آئى، اور پھر عقد نكاح كے ليے خوشى و فرحت كے امور كرنا شرط نہيں، كيونكہ عقد نكاح كے ليے لڑكى كا ولى اور دو عادل گواہ اور ايجاب و قبول ہونا ہى كافى ہيں.
ليكن اس ميں آپ كو لڑكى كےگھر والوں كے جذبات كا خيال كرنا ہوگا، اگر تو انہيں اس وقت عقد نكاح كرنے سے كوئى اذيت و تكليف نہيں ہو گى تو الحمد للہ، وگرنہ آپ اتنى دير تك عقد نكاح كو مؤخر كرديں جب تك ان كا غم ہلكا نہ ہو جائے، اور لڑكى كى والدہ عدت ختم ہونے اگر وہ رغبت ركھے تو خود بھى زينت اختيار كر سكے.
يہ سب كو معلوم ہے كہ جس عورت كا خاوند فوت ہو چكا ہو تو وہ دوران عدت نہ تو زيور پہن سكتى ہے اور نہ ہى بناؤ سنگھار كر سكتى ہے، اور نہ ہى خوشبو استعمال كر سكتى ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (13966 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
حاصل يہ ہوا كہ: اگر لڑكى كےگھر والے راضى ہوں اور ايسا كرنے سے انہيں كوئى تكليف اوراذيت نہ ہوتى ہو تو شرعى طور پر اس طرح كى حالت ميں عقد نكاح كرنے ميں كوئى مانع نہيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات