كيا خاوند كے مال ميں بيوى كا حق زيادہ ہے يا كہ خاوند كے والدين كا ؟
ميں نے ايك سوال پڑھا جس ميں بيان كيا گيا تھا كہ آدمى كے بيوى بچے اس كے مال كے زيادہ حقدار ہيں، اور كيا اگر آدمى كى آمدنى قليل ہو تو كيا وہ بيوى بچوں كى ضروريات پر اپنے والدين كى ضروريات كو مقدم كريگا يا بيوى بچوں كى ضروريات والدين كى ضروريات پر مقدم ہونگى ؟
بيوى كا نان و نفقہ والدين كے نفقہ پر مقدم ہو گا
سوال: 129344
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جواب :
اول:
بلاشك و شبہخاوند كے ليے بيوى بچوں كا خرچ لازم اور واجب ہے، اور اگر والدين فقراء و محتاج ہوںتو اسے والدين كا خرچ كرنے كا بھى مطالبہ كيا جائيگا، كيونكہ ان كى كوئى آمدنىنہيں ہے.
اس كى تفصيل سوالنمبر ( 10552 ) اور ( 111892 ) اور ( 6026 ) كے سوالات ميںبيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
اور اگر آدمى انسب پر خرچ كرنے كى استطاعت ركھتا ہو تو سب پر خرچ كرنا واجب ہوگا.
اور اگر مال كىقلت اور ماہانہ آمدنى كم ہونے كى وجہ سے وہ سب پر خرچ كرنے كى استطاعت نہيں ركھتاتو پھر بيوى بچوں كا خرچ دوسروں پر مقدم ہوگا.
قرآن مجيد ميں تواس كى كوئى دليل نہيں ملتى كہ بيوى كا نان و نفقہ كسى دوسرے پر مقدم كيا جائے، ليكنسنت نبويہ سے اس كا ثبوت ملتا ہے.
صحيح مسلم ميںجابر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم اپنےآپ سے شروع كرو اور اپنى جان پر صدقہ كرو اگر كچھ باقى بچ جائے تو پھر تيرے اہل وعيال كے ليے ہے، اور اگر اہل و عيال سے بچ جائے تو پھر قريبى رشتہ داروں كا، اوراگر قريبى رشتہ داروں سے بچ جائے تو پھر ايسے ايسے تيرے سامنے اور دائيں بائيں”
صحيح مسلم حديثنمبر ( 997 ).
ابو ہريرہ رضىاللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
صدقہ كيا كرو، توايك شخص نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے پاس ايك دينارہے.
نبى كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے اپنے آپ پرصدقہ كرو.
اس شخص نے كہا:ميرے پاس ايك اور دينار ہے ؟
رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے اپنى بيوى پرصدقہ كرو.
اس شخص نے عرضكيا: ميرے پاس ايك اور دينار بھى ہے ؟
رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اسے اپنى اولادپر صدقہ كرو.
اس شخص نے عرضكيا: ميرے پاس ايك اور دينار ہے ؟
رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلام نے فرمايا: اسے اپنے خادم پر صدقہ كرو.
وہ شخص عرض كرنےلگا: ميرے پاس ايك اور دينار بھى ہے ؟
رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تمہيں اس كى زيادہ بصيرت ہے “
سنن ابو داودحديث نبمر ( 1691 ) اور امام نسائى نے بھى روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نےاسے ارواء الغليل حديث نمبر ( 895 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
نبى كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے اہل و عيال پر خرچ كرنے كو صدقہ كا نام ديا ہے اس سے يہ نہيںسمجھنا چاہيے كہ يہ صرف مستحب ہے، بلكہ يہ خرچ واجب ہے.
مھلب رحمہ اللہكہتے ہيں:
” بالاجماعاہل و عيال كا نان و نفقہ واجب ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اس خدشہ كىخاطر صدقہ كا نام ديا ہے كہ كہيں لوگ واجب كى ادائيگى ميں يہ خيال نہ كرنے لگيں كہاس ميں انہيں اجروثواب نہيں ملےگا، كيونكہ لوگوں كو صدقہ و خيرات كے اجروثواب كا علمہے، اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں يہ معلوم كرايا كہ يہ بھى ان كےليے صدقہ كا درجہ اور ثواب ركھتا ہے، تا كہ وہ اسے اہل و عيال كى بجائے كہيں اورنہ ديں، بلكہ جب اہل و عيال سے كافى ہو اور زائد ہو جائے تو پھر وہ كہيں اور صرفكريں.
يہ چيز نفلى صدقہكرنے كى بجائے پہلے واجب صدقہ كرنے كى ترغيب ہے، كہ واجب صدقہ كو نفلى پر مقدم كياجائيگا ”
ديكھيں: فتحالبارى ( 9 / 623 ).
اور خطابى رحمہاللہ كہتے ہيں:
” جب آپ استرتيب پر غور كريں گے تو آپ كو علم ہو گا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب سےقريب اور اولى كو مقدم كيا ہے، اس كے بعد دوسرے نمبر والے كو ركھا ہے”
ديكھيں: عونالمعبود ( 5 / 76 ).
اور امام نووىرحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جب ايكشخص كے ليے كئى ايك محتاج اور ضرورتمند اكٹھے ہو جائيں جن ميں اس پر نان و نفقہلازم والے بھى شامل ہوں تو وہ ديكھےگا كہ اگر اس كا مال سب كے ليے كافى ہے تو وہسب پر خرچ كريگا، يعنى قريبى رشتہ دار اور دور كے رشتہ دار سب كا خرچ ادا كريگا.
ليكن اگر وہ مالاس كے اپنے آپ پر خرچ كرنے كے بعد ايك فرد كا نفقہ بچے تو پھر وہ بيوى كو باقىرشتہ داروں پر مقدم كريگا… كيونكہ بيوى كا نفقہ تو خاوند كے ذمہ يقينى اور تاكيدہے، اور يہ وقت گزرنے سے بھى ساقط نہيں ہوتا، اور نہ ہى تنگ دست ہو جانے كى صورتميں بھى ساقط ہوگا ” انتہى
ديكھيں:روضۃ الطالبين ( 9 / 93 ).
مرداوى رحمہ اللہكہتے ہيں:
” صحيح مذہبيہى ہے كہ والدين اور دادا پردادا اور اولاد چاہے وہ جتنے بھى نيچے كى نسل ميں ہوںكا نان و نفقہ معروف طريقہ سے اپنے اور بيوى كے خرچ كے بعد زيادہ مال ہونے كى صورتميں واجب ہے ” انتہى
ديكھيں: الانصاف( 9/ 392 ).
امام شوكانى رحمہاللہ كہتے ہيں:
” اس پراجماع ہو چكا ہے كہ خاوند بيوى كا نان و نفقہ واجب ہے، اور اگر اس كے بعد اس كےپاس كچھ مال بچ جائے تو پھر قريبى رشتہ دار پر خرچ كريگا ” انتہى
ديكھيں: نيلالاوطار ( 6 / 381 ).
چنانچہ والدين كےنان و نفقہ پر بيوى كے نان و نفقہ كو مقدم كرنے ميں علماء كرام كا كوئى اختلافنہيں ہے، بلكہ بيوى اور اولاد كے متعلق علماء اختلاف كرتے ہيں كہ ان ميں سے كس كومقدم كيا جائيگا ؟
شيخ ابن عثيمينرحمہ اللہ كہتے ہيں:
صحيح يہى ہے كہوہ اپنے آپ سے شروع كرے، اور اس كے بعد بيوى اور اس كے بعد اولاد اور پھر والديناور پھر باقى دوسرے رشتہ دار ” انتہى
ديكھيں: فتح ذىالجلال و الاكرام ( 5 / 194 ).
اوپر جو كچھ بيانہوا ہے اس كى بنا پر خاوند پر واجب ہے كہ وہ اپنى بيوى سے شروع كرے، اور اگر اس كےبيوى بچوں كا واجب خرچ ادا كرنے كے بعد زيادہ ہو تو پھر اس پر واجب ہے كہ وہ اپنےوالدين پر خرچ كرے.
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات