آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شادی (حق مہر، شادی کی تقریب، اور ولیمہ وغیرہ) کے لیے کیا ہدایات دی ہیں؟ ذرا تفصیل سے بیان کر دیں۔
شادی کے لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایات
سوال: 129635
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے نکاح اور شادی بیاہ کے لیے یہی ترغیب تھی کہ انہیں آسان بنایا جائے، اور اعلانیہ نکاح کیا جائے، پھر اظہار مسرت بھی ہو، شادی میں ولیمہ بھی ہونا چاہیے، پھر جنہیں دعوت دی جائے انہیں دعوت قبول کرنے کا حکم بھی دیا، بلکہ اگر کسی کا ولیمے کے دن روزہ بھی ہو تو تب بھی حاضر ہو کر ولیمہ کرنے والے کو دعا دے دے، پھر اگر کھانا نہ بھی کھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
پھر شادی کی تقریب مکمل ہونے پر بقیہ زندگی حسن معاشرت اپنائے، اور اس کے لیے تمام اسباب و وسائل مہیا رکھے۔
یہ مختصراً بات تھی، اب آپ کو ان امور کی تفصیلات بیان کرتے ہیں:
اول: حق مہر اتنا ہو کہ جس کی ادائیگی آسان ہو
چنانچہ سنن بیہقی: (14721) میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بہترین حق مہر وہ ہے جس کی ادائیگی آسان ہو) یہی روایت سنن ابو داود: (2117) میں ان الفاظ کے ساتھ ہے کہ: (آسان ترین نکاح بہترین نکاح ہے۔) اس حدیث کو البانی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔
صاحب "عون المعبود" اس حدیث کی شرح میں کہتے ہیں:
"یعنی دلہے کے لیے آسان ہو کہ اس میں حق مہر مناسب مقدار میں ہو اور دیگر اخراجات بھی اعتدال کی حد میں ہوں۔ علامہ الشیخ عزیزی کہتے ہیں کہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کا حق مہر کم از کم ہو، اور جس میں منگنی بڑی آسانی سے ہو گئی ہو۔" ختم شد
اسی طرح مسند احمد: (23957) اور ابن حبان: (4095) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (عورت کے بابرکت ہونے میں یہ بھی شامل ہے کہ: اس کے ساتھ نسبت آسانی سے ہو جائے، حق مہر کی ادائیگی بھی آسان ہو، اور اس کے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی بھی آسان ہو۔) اس حدیث کو البانی ؒ نے صحیح الجامع: (2235) میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "توجہ کریں! عورتوں کے حق مہر میں مبالغہ آرائی مت کریں؛ کیونکہ اگر بڑی مقدار میں حق مہر دنیاوی اعزاز کی بات ہوتی ، یا اللہ تعالی کے ہاں تقوی کا معیار ہوتا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اس کا ضرور اہتمام فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں تو مجھے اس سے زیادہ معلوم نہیں کہ آپ نے اپنی کسی بیوی کو یا اپنی کسی بیٹی کے لیے 12 اوقیہ چاندی سے زیادہ حق مہر دیا ہو یا مقرر کیا ہو۔" اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1114)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اوقیہ: چالیس درہم کا ہوتا ہے، اور درہم کا گراموں میں وزن 2.975 گرام بنتا ہے۔
دوم: اعلانیہ نکاح کرنا
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس نکاح کو اعلانیہ کرو) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1089)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "ارواء الغلیل" (7/50) میں حسن قرار دیا ہے۔
اسی طرح محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (حلال اور حرام [نکاح] میں تفریق کا ذریعہ: دف بجانا اور بلند آواز سے نکاح [میں گیت گانا ] ہے۔ ) اس حدیث کو نسائی رحمہ اللہ (3369)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
یہاں دف بجانے کا عمل صرف خواتین کے ساتھ خاص ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں:
"شادی بیاہ میں دف بجانے کے بارے میں مضبوط احادیث ہیں، تاہم یہ اجازت صرف خواتین کے ساتھ خاص ہے؛ لہذا مردوں کو اس اجازت میں شامل نہیں کیا جائے گا؛ کیونکہ مردوں کے لیے عورتوں کی مشابہت کرنا منع ہے۔" ختم شد
سوم: ولیمہ
شادی کے لیے ولیمہ کرنا سنت مؤکدہ ہے، در حقیقت یہ بھی نکاح کے اعلان ، اور نکاح کی خوشی کے اظہار میں شامل ہے۔
چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو شادی کرنے پر فرمایا تھا: (ولیمہ کرو، چاہے اس میں ایک بکری ہی ذبح کرو) متفق علیہ
تاہم بعض اہل علم شادی کے لیے ولیمے کو واجب قرار دیتے ہیں، ان کی دلیل مسند احمد: (22526) میں بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "جس وقت سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھیجا، تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا: (شادی کے لیے ولیمہ لازمی ہے)" علامہ البانیؒ آداب الزفاف (72) میں کہتے ہیں: "اس کی سند -حافظ ابن حجر کے فتح الباری میں موقف کے مطابق- قابل قبول ہے۔" ختم شد
نیز جب ولیمے میں شرکت کی دعوت دی جائے تو اس میں حاضر ہونا لازم ہے، چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کسی کو ولیمے کی دعوت دی جائے تو وہ دعوت قبول کر کے ضرور شرکت کرے) متفق علیہ
ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم رحمہم اللہ کہتے ہیں: پہلی شادی کے وقت ولیمے کی دعوت قبول کرنا لازم ہے، لہذا دلہا خود دعوت دے یا اپنے نمائندے کے ذریعے دعوت پہنچائے، یا شادی کارڈ بھیجے تو ولیمے کی دعوت قبول کرے، بشرطیکہ ولیمے میں کوئی غیر شرعی امور نہ ہوں، اگر ولیمے کی تقریب میں غیر شرعی امور ہوں تو پھر اس کے حکم میں کچھ تفصیل ہے: چنانچہ اگر ولیمے کی دعوت میں حاضر ہو کر برائی کو روکنا ممکن ہو تو اس میں حاضر ہونا واجب ہے، اور اگر وہ برائی نہیں روک سکتا تو پھر اس کے لیے حاضر ہونا واجب نہیں ہے۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (133/13)
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (22006 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
ولیمے کی دعوت میں گوشت پکانا ضروری نہیں ہے، بغیر گوشت پکائے بھی ولیمہ ہو سکتا ہے، چنانچہ صحیح بخاری: (4213) میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر اور مدینہ کے درمیان تین راتیں قیام کیا، اور وہیں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خلوت اختیار کی تھی۔ تو میں نے مسلمانوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ولیمے کے لیے بلایا، اس میں روٹی اور گوشت نہیں تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بلال کو حکم دیا تو انہوں نے دستر خوان بچھا دیا اور اس پر کھانے کے لیے کھجور، پنیر اور گھی رکھ دیا گیا۔)
چہارم:
دلہے کو اسی انداز سے مبارک باد دیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دیا کرتے تھے یہ عمل مستحب ہے، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی انسان کو شادی کرنے پر دعا دیتے تو اسے مبارک باد اور دعا دیتے ہوئے کہتے: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ ، وَبَارَكَ عَلَيْكَ ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ یعنی: اللہ تعالی تمہارے لیے برکت فرمائے اور تجھ پر برکت نازل فرمائے، اور تم دونوں کو خیر کے ساتھ اکٹھا رکھے۔
اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ (2130)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
پنجم:
بیوی کے ساتھ خلوت اختیار کرتے ہوئے چند چیزوں کا خیال رکھنا مستحب ہے، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
– خلوت کے وقت دل بہلانے کے لیے بیوی کے ساتھ بات چیت کرنا
چنانچہ مسند احمد: (26925) میں سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ: "جس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو تیار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجا گیا تو میں عائشہ کے ساتھ ہی تھی۔ آپ کہتی ہیں کہ: اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ضیافت کے لیے صرف ایک دودھ کا پیالہ تھا۔ جس میں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود پیا، اور پھر عائشہ رضی اللہ عنہا کو تھما دیا، جس پر دلہن شرما گئی ، تو ہم نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ کو واپس مت کرو، آپ کے ہاتھ سے دودھ کا پیالہ لے لو۔ تو شرماتے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پیالہ لے لیا اور اس میں سے دودھ پیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں کہا: اپنی سہیلیوں کو بھی دے دو۔ اس پر ہم نے کہا: ہمیں بھوک نہیں ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جھوٹ اور بھوک اکٹھے مت کرو۔"
اس حدیث کو البانی ؒ نے "آداب الزفاف" (19) میں حسن قرار دیا ہے۔
-بیوی کے سر پر ہاتھ رکھ کر بیوی کو دعا دینا:
اس کی دلیل عمرو بن شعیب عن ابیہ، عن جدہ کی روایت میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی کسی خاتون سے شادی کرے تو اس کی پیشانی سے پکڑ کر یہ دعا پڑھے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَمِنْ شَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ یعنی: اے اللہ ! میں اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس خیر کا سوال کرتا ہوں جس پر تو نے اسے پیدا کیا ، اور اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اس شر سے بھی جس پر تو نے اس کو پیدا کیا ہے ) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ (2160) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
-کچھ سلف صالحین نے اکٹھے دو رکعت نماز با جماعت ادا کرنے کو مستحب قرار دیا ہے:
چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ: (17156) میں شقیقؒ سے مروی ہے کہ: ایک آدمی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے ایک نوجوان لڑکی سے شادی کی ہے، لیکن خدشہ ہے کہ وہ مجھے ناراض کر دے گی۔ شقیق کہتے ہیں: اس پر عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: [میاں بیوی میں] محبت اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے اور نفرت شیطان کی طرف سے۔ شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے حلال چیز کو ناگوار بنا دے، جب آپ کی اہلیہ آپ کے پاس آئے تو اسے کہیں کہ آپ کے پیچھے دو رکعت ادا کرے۔
اس اثر کو البانیؒ نے "آداب الزفاف" (24) میں صحیح قرار دیا ہے۔
-جسمانی تعلق قائم کرنے سے پہلے دعا پڑھے: بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں ، اے اللہ ! ہم سے شیطان کو دور رکھ اور جو کچھ ہمیں تو دے ( اولاد ) اس سے بھی شیطان کو دور رکھ۔
اس کی دلیل صحیح بخاری: (3271) میں سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آتا ہے اور یہ دعا پڑتا ہے بِسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ” اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں ، اے اللہ ! ہم سے شیطان کو دور رکھ اور جو کچھ ہمیں تو دے ( اولاد ) اس سے بھی شیطان کو دور رکھ ۔ “ پھر اگر ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔)
آخری بات: اکٹھے رہتے ہوئے حسن معاشرت کا خاوند بھی خیال رکھے اور بیوی بھی، خاوند اللہ سے ڈرتے ہوئے بیوی کے حقوق ادا کرے اور بیوی اللہ سے ڈرتے ہوئے خاوند کے حقوق ادا کرے۔
کیونکہ اللہ تعالی کا حکم ہے: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ترجمہ: اور اپنی بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت کے ساتھ رہو؛ کیونکہ اگر تم ان سے کچھ ناگواری محسوس کرو، تو عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور پھر بھی اللہ تعالی اس میں خیر کثیر مقدر فرما دے۔[النساء: 19]
ایسے ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب کوئی عورت پانچوں نمازیں پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے، اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو اسے کہا جائے گا: جنت کے جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہو جاؤ) اس حدیث کو مشکاۃ (3254)کی تخریج میں البانیؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات