رمضان المبارك ميں ہم سحرى كے بارہ ميں بہت كچھ سنتے ہيں، اور وہ احاديث بھى سنتے ہيں جو مساجد ميں سنائى جاتى ہيں كہ سحرى ميں بركت ہے، ليكن بعض اوقات رات كا كھانا دير سے كھانے كى بنا پر سحرى كھانے كى خواہش اور طلب نہيں ہوتى اور ہم يہ بركت چھوڑ ديتى ہيں، تو كيا اس ميں ہم پر كوئى گناہ تو نہيں ہوتا ؟
سحرى كى حرص ركھى جائے چاہے تھوڑى ہى كھائيں
سوال: 130209
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
" بلاشك و شبہ سحرى كا كھانا تناول كرنا سنت اور قرب كا باعث ہے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
" سحرى كھايا كرو كيونكہ سحرى كے كھانے ميں بركت ہے "
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود بھى سحرى تناول فرمايا كرتے تھے، اس ليے سحرى سنت ہے واجب نہيں، لہذا جو كوئى سحرى نہيں كھاتا سنت ترك كرنے كى بنا پر اسے كوئى گناہ نہيں ہے.
ليكن سحرى كھانى چاہيے چاہے تھوڑى سى ہو، يہ ضرورى نہيں كہ سحرى زيادہ ہى كھائى جائے، جتنى كھائى جا سكتى ہے كھائے چاہے چند ايك كھجوريں ہى كھا لے، يا پھر جو كھانا ميسر ہو تناول كرے، اور سحرى رات كے آخرى حصہ ميں كھائے.
اگر ميسر نہ ہو يا پھر كھانے كى طلب نہ ہو تو پھر كچھ تھوڑا سا دودھ يا لسى يا پھر پانى ہى پى ليا جائے، يعنى چند ايك گھونٹ پانى پى لے، اور سحرى نہ چھوڑے، كيونكہ ايك لقمہ ميں ہى بہت بركت و خير پائى جاتى ہے.
اور پھر سحرى تو روزے دار كے ليے روزے ميں ممد و معاون ہوتى ہے جو اسے دن ميں كام كاج كے وقت معاون بن جاتى ہے، اس ليے روزے دار كو سحرى نہيں چھوڑنى چاہيے چاہے قليل سى كھائے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" سحرى كھايا كرو، كيونكہ سحرى ميں بركت ہے "
سحرى كى حرص ركھے، چاہے تھوڑا كھانا ہى يا پھر چند ايك كھجوريں يا دودھ پى كر دن ميں اپنے دينى اور دنياوى كاموں ميں اسے ممد و معاون بنائے " انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.
ماخذ:
فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب