ميرے والد صاحب فوت ہوئے تو رمضان المبارك كے دو روزے ان كے ذمہ تھے كيونكہ بيمارى كى بنا پر وہ نہيں ركھ سكے اور وہ شوال ميں فوت ہوگئے، انہوں نے كہا تھا كہ وہ روزوں كے بدلے ميں دو مسكينوں كو كھانا كھلائيں گے، برائے مہربانى ہميں يہ بتائيں كہ ہم پر كيا واجب ہوتا ہے اور اس كا حكم كيا ہے ؟
كيا ہم ان كى جانب سے روزے ركھيں يا كہ صرف فديہ ميں كھانا كھلا ديں ؟
يہ علم ميں رہے كہ ہميں يہ علم نہيں كہ آيا انہوں نے فديہ ادا كر ديا تھا يا كہ روزے ركھ ليے تھے، كيونكہ وہ شوگر كے مريض تھے اور مشقت كے ساتھ روزے ركھتے تھے ؟
ميت كے ذمہ بيمارى كى وجہ سے دو روزوں كى قضاء تھى كيا اولاد روزے ركھے گى ؟
سوال: 130283
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
” اگر آپ كے والد صاحب روزے كى قضاء ميں روزہ ركھنے كى استطاعت ركھتے تھے اور انہوں نے قضاء ميں روزے ركھنے كى سستى كى حتى كہ دوسرا رمضان شروع ہو گيا اور وہ اس رمضان كے بعد فوت ہوگئے تو آپ لوگوں كے ليے افضل و بہتر يہى ہےكہ آپ ميں كوئى شخص ان كى جانب سے دو روزے ركھے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كا ولى اس كى جانب سے روزے ركھے ” متفق عليہ.
اور اگر آپ ايك صاع علاقے كى خوراك مسكينوں كو دے ديں جو كہ تقريبا تين كلو بنتى ہے تو يہ كافى ہو جائيگى.
ليكن اگر وہ رمضان المبارك سے قبل روزے ركھنے كى استطاعت نہيں ركھتے تھے يعنى وہ بيمارى كى بنا پر دوسرا رمضان آنے سے قبل دو روزے نہيں ركھ سكے تو پھر نہ تو قضاء ہے اور نہ ہى كھانا دينا كيونكہ انہوں نے كوئى كوتاہى نہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى سعودى عرب.
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
الشيخ صالح الفوزان.
الشيخ عبد العزيز آل شيخ.
الشيخ بكر ابو زيد.
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء المجموعۃ الثانيۃ ( 9 / 261 )