0 / 0

والدہ فوت ہوئى تو اس كے ذمہ دو رمضان كے روزے تھے

سوال: 130647

والدہ نے مجھے بتايا كہ ان كے ذمہ دو رمضان كے روزے ہيں، كيونكہ ماہ رمضان ميں تو ولادت تھى اور فوت ہونے تك انہوں نے قضاء كے روزے نہيں ركھے، تو كيا ميں ان كى جانب سے روزے ركھوں يا كھانا كھلا دوں ؟
كيا ميں بكرا ذبح كر كے اسے ساٹھ مسكينوں ميں تقسيم كر دوں يا كھانے كى رقم تقسيم كروں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

بہتر تو يہى ہے كہ آپ اپنى والدہ كى جانب سے روزے ركھيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو شخص فوت ہو جائے اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس كا ولى اس كى جانب سے روزے ركھے " متفق عليہ

اور ولى ميت كا قريبى ہوتا ہے، اگر آپ يا كسى اور وارث كے ليے روزے ركھنا آسان نہيں تو پھر آپ والدہ كے تركہ اور وراثت سے ايك دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائيں، اور اس كى مقدار نصف صاع ہے جو كہ علاقے ميں استعمال ہونے والا غلہ كى شكل ميں دى جائيگى، اور اگر ايك ہى فقير كو اكٹھا دے ديا جائے تو بھى جائز ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ و الافتاء

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ غديان.

ماخذ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحموث العلميۃ والافتاء ( 9 / 260 )

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android