میرا ایک صوفی سے مباحثہ ہو رہا تھا، اس نے مجھ سے قبروں پر نماز پڑھنے کے بارے میں میری رائے پوچھی ، اور ساتھ میں کچھ دیندار علمائے کرام کے متعلق اور انکی قیامت کے دن شفاعت کے بارے میں استفسار کیا۔
تو میں نے اسے کہا کہ قبروں پر نماز پڑھنا شرک ہے، اور قیامت کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی شفاعت نہیں کریگا۔
اور اب میں اہل علم کی اس بارے میں رائے جاننا چاہتا ہوں، اور اس کے متعلق مجھے دلائل کہاں سے ملیں گے؟
مجھے امید ہے کہ آپ میرے سوال کا جواب ضرور دینگے۔
قبروں کے پاس نماز اور شفاعت کی شرائط
سوال: 13490
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول: قبروں پر نماز پڑھنے کا مسئلہ
قبروں پر نماز پڑھنے کا مسئلہ دو قسموں میں منقسم ہے:
پہلی قسم: قبر میں مدفون شخص کیلئے نماز پڑھنا، تو یہ شرک اکبر ہے، جو کہ انسان کو اسلام سے خارج کر دے گا؛ کیونکہ نماز عبادت ہے، اور عبادت غیر اللہ کیلئے نہیں کی جاسکتی، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا
ترجمہ: اللہ کی عبادت کرو، اور اسکے ساتھ کسی کو بھی شریک مت بناؤ [النساء : 36]
ایسے ہی فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا
ترجمہ: بیشک اللہ تعالی شرک کو کبھی بھی معاف نہیں کریگا، اور اسکے علاوہ دیگر گناہ جس کیلئے چاہے گا معاف فرما دے گا، اور جو کوئی بھی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو وہ دور کی گمراہی میں چلا گیا۔ [النساء : 116]
دوسری قسم: قبر پر اللہ کیلئے نماز پڑھنا، اس قسم کے تحت کچھ مسائل ہیں:
1- قبر پر نمازِ جنازہ پڑھنا ، یہ جائز ہے۔
اس کیلئے صورتِ مسئلہ ایسے ہے کہ: ایک شخص فوت ہو جائے اور آپ کو مسجد میں اسکا جنازہ پڑھنے کا موقع نہ ملے تو آپ کیلئے اسکی قبر پر جا کر جنازہ پڑھنا جائز ہے۔
اس مسئلہ کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "ایک سیاہ فام عورت یا آدمی مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا ، تو وہ فوت گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت کیا تو بتلایا گیا: وہ فوت ہو گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم نے مجھے کیوں نہیں بتلایا؟ مجھے اسکی قبر کے بارے میں بتلاؤ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی قبر پر آ کر اسکا جنازہ پڑھا" بخاری: (458)، اور مسلم: (956) لفظ بخاری کے ہیں۔
2- قبرستان میں نماز جنازہ پڑھنا، یہ صورت بھی جائز ہے۔
اس کیلئے صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ: ایک شخص فوت ہو جائے اور مسجد میں اسکا جنازہ پڑھنے کا آپکو موقع نہ ملے تو قبرستان جا کر دفن کرنے سے پہلے اس کا جنازہ پڑھیں۔
اس کے بارے میں شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قبرستان کے اندر میت کا جنازہ پڑھنا جائز ہے، جیسے کہ دفن کرنے کے بعد جائز ہے؛ کیونکہ یہ ثابت ہے کہ ایک لڑکی مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی جب وہ فوت ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا، تو صحابہ کرام نے بتلایا کہ : وہ فوت ہو گئی ہے، تو آپ نے فرمایا: (تو تم نے مجھے کیوں نہیں بتلایا؟ مجھے اسکی قبر کے بارے میں نشاندہی کرو) تو انہوں نے اسکی قبر کی نشاندہی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکا جنازہ پڑھا، اور پھر فرمایا: (یہ قبریں مدفون لوگوں کیلئے اندھیرے سے بھری ہوتی ہیں، اور بیشک اللہ تعالی مدفون لوگوں کیلئے میرے نماز جنازہ پڑھنے کی وجہ سے انہیں منور فرما دیتا ہے)"مسلم: (956)۔ انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (8/392)
3- قبرستان میں نماز جنازہ کے علاوہ کوئی اور نماز ادا کرنا، یہ نماز باطل ہے، درست نہیں ہے، چاہے نفل نماز ہو یا فرض نماز۔
اسکی پہلی دلیل : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (قبرستان اور حمام کے علاوہ ساری کی ساری زمین نماز ادا کرنے کی جگہ ہے)
ترمذی: (317) اور ابن ماجہ: (745) البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابن ماجہ": (606) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوسری دلیل: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (اللہ تعالی یہود ونصاری پر لعنت فرمائے، انہوں نے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا)
بخاری: (435) مسلم: (529)
تیسری دلیل: (جو کہ وجہ حرمت ہے) کہ قبرستان میں نماز کو قبروں کی پوجا کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، یا کم از کم قبروں کے پجاریوں کیساتھ اس میں مشابہت ضرور ہے، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے طلوع یا غروب ہونے کے وقت میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا، کیونکہ سورج کے پجاری اس وقت سورج کی عبادت کرتے تھے، یہ ممانعت اس لئے فرمائی تا کہ نماز کو سورج کی پرستش کا ذریعہ نہ بنا لیا جائے، یا کم از کم کفار کی مشابہت سے بچا جائے۔
4- قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنا، صحیح موقف کے مطابق اس طرح نماز پڑھنا حرام ہے۔
صورتِ مسئلہ یہ ہے کہ: آپ قبر یا قبرستان کو قبلہ کی سمت رکھ کر کے نماز پڑھیں، آپ خود قبرستان سے باہر ہوں، اور نماز پڑھتے وقت آپکے اور قبرستان یا قبر کے درمیان میں کوئی اوٹ یا دیوار نہ ہو۔
اسکے حرام ہونے کے دلائل:
پہلی دلیل: ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قبروں پر مت بیٹھو، اور نہ ہی قبروں کی جانب متوجہ ہو کر نماز ادا کرو)مسلم: (972)
اس حدیث میں قبرستان، متعدد قبروں، یا ایک قبر کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنے کی حرمت بیان کی گئی ہے۔
دوسری دلیل: قبرستان میں نماز سے ممانعت کا سبب قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز ادا کرنے میں بھی موجود ہے، چنانچہ جب تک کسی انسان کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ قبر یا قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھ رہا ہے تو وہ بھی اس ممانعت میں داخل ہوگا، اور اگر وہ اس ممانعت میں داخل ہے تو اسکی نماز درست نہیں ہوگی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں اسی انداز سے نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی ہے، اور اگر کوئی قبر کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھتا ہے تو اس میں نیکی اور گناہ دونوں جمع ہو جاتے ہیں، اور ایسا عمل جس میں نیکی اور گناہ دونوں جمع ہوں ، قربِ الہی کا باعث نہیں بن سکتا۔
تنبیہ: اگر آپ کے اور قبرستان کے درمیان دیوار کا فاصلہ ہو، تو ایسی صورت میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور نہ ہی نماز سے ممانعت ہے، اسی طرح اگر آپ کے اور قبرستان کے درمیان سڑک ہو، یا اتنی مسافت ہو کہ کوئی آپکو "قبرستان کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے والا "نہیں کہہ سکتا تو پھر بھی اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ واللہ اعلم
"المغنی": (1/403) "الشرح الممتع "از: ابن عثیمین: (2/232) رحمہم اللہ جمیعاً
دوم: شفاعت کا مسئلہ
آپ نے یہ کہہ کر غلطی کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی قیامت کے دن شفاعت نہیں کر سکتا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ دیگر مؤمنین بھی شفاعت کرینگے۔ مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (11931) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔
لیکن یہاں پر ہم ایک مسئلے کا اضافہ کرنا چاہیں گے جو آپ نے وہاں ذکر نہیں کیا کہ اس شفاعت کی شروط ہونگی:
پہلی شرط: شفاعت کرنے والے کیلئے اللہ کی طرف سے شفاعت کرنے کی اجازت۔
دوسری شرط: جس کیلئے شفاعت کی جائے اس کے بارے میں اللہ تعالی شفاعت پر راضی بھی ہو۔
ان دونوں شرطوں کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
وَكَمْ مِنْ مَلَكٍ فِي السَّمَاوَاتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ أَنْ يَأْذَنَ اللَّهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضَى
ترجمہ: آسمانوں میں کتنے ہی فرشتے ہیں جن کی شفاعت اس وقت تک سود مند نہیں ہوتی جب تک اللہ تعالی جسے چاہے اور پسند کرے اجازت نہ دے دے۔[النجم : 26]
ایسے ہی فرمایا: وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى
اور وہ صرف انہی کیلئے شفاعت کر سکتے ہیں جن کیلئے اللہ راضی ہو۔[الأنبياء : 28]
جبکہ بت پرستوں کی جانب سے اپنے معبودان کیلئے وہمی شفاعت کی کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ باطل شفاعت ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی شفاعت کرنے کی اجازت شافع[شفاعت کرنے والے] اور مشفوع لہ [جس کیلئے شفاعت کی جائے]سے راضی ہونے کے بعد ہی عطا فرماتا ہے۔
دیکھیں: " القول المفيد شرح كتاب التوحيد " از: شيخ محمد بن عثیمین رحمہ الله (336-337) پہلا ایڈیشن
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم و مؤمنین کو ملنے والے حق شفاعت کے اقرار سے انکی شفاعت حاصل کرنے کیلئے کوئی راستہ پیدا نہیں ہو سکتا، جیسے کہ کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے شفاعت طلب کرتے ہیں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد