اگر کوئی شخص کلمہ شہادت پڑھے تو کیا اس میں توحید الوہیت، ربوبیت اور توحید اسما و صفات تینوں اقسام شامل ہوتی ہیں یا صرف الوہیت ہوتی ہے؟ کیونکہ میں نے پڑھا ہے کہ { أشهد أن لا إله إلا الله} کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے۔ اور میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ صرف اللہ کی عبادت کروں اور کسی اور کی عبادت سے بچوں۔ میں جس وقت کسی گناہ سے توبہ کرنا چاہتا ہوں تو یہی معنی اپنے ذہن میں رکھ کر پڑھتا ہوں، تو کیا میرا کلمہ شہادت پڑھنا ناقص ہو گا؟ کیونکہ میرے ذہن میں اس وقت توحید ربوبیت اور توحید اسما و صفات نہیں ہوتیں، حالانکہ میرا ان دونوں پر ایمان بھی ہے۔ مجھے بتلائیں کہ کیا میری توبہ صحیح ہے؟
کلمہ اخلاص اور کلمہ توحید دین کی بنیاد ہے، یہی نجات کا راستہ ہے، اور کامیابی کی دلیل ہے۔ یہی جن و انس کی تخلیق کا مقصد بھی ہے کہ ثقلین اسی کی آبیاری کے لیے جد و جہد کریں۔
اس میں توحید کی تینوں اقسام توحید الوہیت، توحید ربوبیت اور توحید اسما و صفات شامل ہیں۔
اگر کوئی شخص کلمہ شہادت پڑھے تو اس پر لازم ہے کہ تینوں قسم کی توحید اپنے ذہن میں رکھے اور ان پر ایمان لائے، اور ہمیشہ ان پر کار بند رہے، ان میں کسی قسم کا شک و شبہ پیدا نہ ہونے دے، اور اس کے لیے کسی تکلف یا پیچیدگی کا بھی شکار نہ ہو۔
کیونکہ عقیدہ توحید کی انسان کو کھانے پینے اور سانس لینے سے بھی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، ویسے بھی عقیدہ توحید انسان کی فطری اور خود بخود پیدا ہونے والی ضرورت ہے۔ لہذا مکلف شخص پر واجب ہے کہ کلمہ توحید کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے جس علم کی ضرورت ہے اسے حاصل کرے اور کلمہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرے، اس طرح اخلاص اور صداقت سے منافی تمام چیزیں ختم بھی ہو جائیں گی۔
کلمہ توحید پڑھتے ہوئے اس کی شرائط جاننے کے لیے آپ سوا ل نمبر: (9104) اور (12295) کا جواب ملاحظہ کریں۔
توحید کی تینوں اقسام ایک دوسرے کو لازم ہوتی ہیں، اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک توحید کی قسم کا اقرار کرتا ہے تو اس پر بقیہ کا اقرار کرنا بھی لازم ہو جاتا ہے، اس حوالے سے الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"توحید ِ ربوبیت کا اقرار کرنے پر توحید الوہیت کا اقرار کرنا بھی لازم ہو جاتا ہے؛ کیونکہ یہی توحیدِ ربوبیت انسان کی توحیدِ الوہیت کی جانب رہنمائی کرتی ہے اور توحید الوہیت کا اقرار کرنا واجب قرار دیتی ہے، اسی طرح توحید ربوبیت کا اقرار کرنے سے توحید اسما و صفات کا اقرار کرنا لازم ہو جاتا ہے؛ کیونکہ جو ذات پیدا کرنے والی ہو، رزق دینے والی ہو اور ہر چیز کی مالک ہو تو وہی اچھے اچھے ناموں اور اعلی صفات کی مستحق ہو گی، وہی ذات ہی اپنے اسما و صفات اور افعال میں کامل بھی ہو گی، اس کا کوئی شریک بھی نہیں ہو گا، نہ ہی اس کی کوئی شبیہ ہو گی ، آنکھیں اس کا مکمل احاطہ نہیں کر سکتیں ، اللہ تعالی سننے والا اور جاننے والا ہے۔
توحید کی تینوں اقسام پر پختہ ایمان رکھنے والا شخص جو ان کے معنی و مفہوم کو سمجھے اور اس کی حفاظت بھی کرے تو اسے یہ یقین ہو جائے گا کہ اللہ تعالی ہی یکتا معبود بر حق ہے۔ اسے یقین ہو گا کہ صرف وہی عبادت کا حق دار ہے کوئی اور نہیں، اور اگر ان اقسام میں سے کسی ایک میں خلل کا شکار ہو جاتا ہے تو سب اقسام میں خلل پیدا ہو گا؛ کیونکہ یہ تینوں اقسام لازم ملزوم ہیں، یہ تینوں اقسام یکجا ہوں تو انسان مسلمان ہوتا ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (1 / 38-39)
آپ کا جب تک ان پر ایمان ہے اور اس پر آپ یقین بھی رکھتے ہیں تو پھر آپ کی گواہی میں کسی قسم کا نقص یا خلل نہیں ہے، چنانچہ آپ کی توبہ بالکل درست ہے کہ آپ کو دوبارہ توبہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ اس لیے کہ ایسا ممکن ہے کہ بسا اوقات انسان کے ذہن سے کوئی چیز اتر جاتی ہے، اور اللہ تعالی کے اسمائے حسنی یا اللہ تعالی کے صفات میں سے کوئی صفت مکمل طور پر ذہن میں نہیں ہوتی ، تو اس سے اللہ تعالی کے دیگر اسمائے حسنی اور صفات پر ایمان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔
تو انسان مقام عبادت اور اطاعت میں توحید عبادت اور الوہیت کا معنی ذہن میں رکھتا ہے، اور نیکی کا کام اللہ کے لیے مخلص ہو کر کرتا ہے۔
جبکہ طلب معاش اور رزق کے وقت، یا مشکل کشائی کے مطالبے کے وقت انسان کے ذہن میں ربوبیت اور اللہ تعالی کے تن تنہا ساری کائنات کے کام چلانے کی صفت ذہن میں ہوتی ہے۔ یعنی ایسا ہوتا ہے کہ انسان جو صفت یا اسم زبان پر لا رہا ہوتا ہے اسی کے مطابق معانی و مفاہیم ذہن میں لاتا ہے، یہ کوئی غلط بات نہیں ہے۔
واللہ اعلم