میں اس حدیث کی صحت کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں حدیث ہے: (جس شخص نے سورہ یاسین صبح کے وقت پڑھی وہ شام تک خوش رہے گا، اور جس نے شام کے وقت پڑھی وہ صبح تک خوش رہے گا)، ایسے ہی کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ یاسین فجر کے وقت ہمیشہ پڑھی ہے؟
صبح شام سورہ یاسین کی تلاوت کرنا؟
سوال: 135081
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں۔
سوال میں مذکور اثر جلیل القدر تابعی یحیی بن ابی کثیر رحمہ اللہ کا اپنا قول ہے، انہوں نےکہا: (جس شخص نے سورہ یاسین صبح کے وقت پڑھی وہ شام تک خوش رہے گا، اور جس نے شام کے وقت پڑھی وہ صبح تک خوش رہے گا، پھر کہا: ہمیں اُس نے بتایا ہے جس نے خود اسکا تجربہ کیا)
اسے ابن ضریس نے “فضائل قرآن” کتاب میں حدیث نمبر 218 اورصفحہ نمبر 101 پر نقل کیا ہے، کہتے ہیں ہمیں عباس بن الولید انہوں نے عامر بن یساف سے ، اور انہوں نے یحیی بن ابی کثیر سے نقل کیا۔
پھر حدیث نمبر 220 پر اسکی ایک اور سند ذکر کی: ہمیں علی بن الحسن نے ، انہوں نے عامر بن یساف سے اور انہوں نے یحیی بن ابی کثیر سے بالکل عباس بن الولید کی حدیث کی طرح بیان کیا۔
چنانچہ اس اثر کا دارو مدار عامر بن یساف پر ہے اور اسکے بارے میں علمائے جرح و تعدیل کا اختلاف پایا جاتا ہے، جیسے کہ ابن عدی کہتے ہیں: “منکر الحدیث عن الثقات، اسکے ضعیف ہونے کے باوجود اسکی احادیث لکھی جائیں گی” ابو داود کہتے ہیں: “لیس بہ باس، رجل صالح” عجلی کہتے ہیں کہ: “يكتب حديثه وفيه ضعف” ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الثقات میں انکا ذکر کیا ہے، مزید تفصیل کیلئے دیکھئے: “لسان المیزان”(3/224) ابو حاتم نے کہا: “وہ نیک ہے” “الجرح و التعدیل “(6/329) اور ایسے ہی “تعجیل المنفعۃ “(1/207)میں ہے: یحیی بن معین کے ان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ابن البرقی نے یحیی بن معین سے “ثقہ” نقل کیا ہے، اور جبکہ عباس الدوری نے “لیس بشیء” نقل کیا، مزید تفصیل کیلئے “تہذیب التہذیب”(5/66) دیکھیں، اور راجح یہ ہے کہ عباس الدوری کا ابن معین سے بیان کرنا ابن البرقی سے بہتر ہے۔
علمائے کرام کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ عامر بن یساف کسی روایت میں منفرد ہو تو اسکی یہ روایت مقبول نہیں ہوگی، کیونکہ انکی روایات میں منکر احادیث موجود ہیں، اسی بنا پر ذہبی رحمہ اللہ نے کہا: “لہ مناکیر” اور حافظ ابن حجر نے “تقریب التہذیب ” میں کہا: “لین الحدیث” اس لئے عامر بن یساف کی یہ روایت یحیی بن کثیر سے ضعیف ہوگی۔
اگر اس کو درست مان بھی لیا جائے تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہی نہیں ہے، بلکہ کسی صحابی کی بھی نہیں، یہ تو یحیی بن کثیر کی اپنی بات ہے، اور انکا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے ، اور انکی وفات (132ہجری) میں ہوئی ہے۔
شیخ محمد عمرو عبد اللطیف رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” دینِ الہی میں اعتماد صحیح احادیث پر ہے جبکہ یہ حدیث منکر ہے صحیح نہیں” “احادیث و مرویات فی المیزان” (صفحہ/75) مطبوعہ ملتقی اہل الحدیث۔
ایسے ہی ہمیں کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جو فجر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیشہ سورہ یاسین پڑھنے پر دلالت کرتی ہو، اور ہمای اس ویب سایٹ پر پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ سورہ یاسین کی فضلیت میں موجود تمام کی تمام روایات ضعیف ہیں، جیسے کہ سوال (75894) کے جواب میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب