معاذ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( جس نے اپنے بھائ کوکسی گناہ کی عاردلائ اسے وہ عمل کرنے سے قبل موت نہیں آۓ گی ) سنن ترمذي ۔
گزارش ہے کہ مندرجہ بالا حدیث کی بالتفصیل شرح فرمائيں ؟
حدیث (من وبخ اخاہ بذنب ) کا معنی اور درجہ
سوال: 13731
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
یہ حدیث امام ترمذی نے کتاب صفۃ القیامۃ والورع ( 2429 ) میں روایت کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ( من عیر اخاہ بذنب لم یمت حتی یعملہ ) اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی ضعیف الجامع حدیث نمبر ( 5710 ) میں موضوع قراردیا ہے ۔
ضعیف اورموضوع احادیث سے نہ تو احکام ہی ثابت ہوتے اور نہ ہی ان دونوں پرعمل ہوسکتا ہے ۔
رہا مسئلہ اس حدیث کے معنی کا تو شیخ مبارکپوری کہتے ہیں :
یہ قول ( من عیر ) یہ تعییر سے ہے یعنی جس نے عیب لگایا ( اخاہ ) یعنی دینی بھائ ( بذنب ) یعنی اس گناہ کا عیب دیاجس کی وہ توبہ کرچکا ہے امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی تفسیریہ کی ہے ( لم یمت ) ضمیر من کی طرف لوٹ رہی ہے ( حتی یعملہ ) یعنی وہ گناہ جس کا اس نے اپنے بھائ پرعیب لگایا تھا ۔
گویا کہ جس نے اپنے بھائ پرکسی گناہ کا عیب لگایا اوراسے عاردلائ جیسا کہ قاموس میں ہے کہ اوروہ ہرچیز جسے لازم کرےوہ عیب ہوگا ، اسے اس کا بدلہ اس طرح دیا جاۓ گا کہ اس سے توفیق سلب کرلی جاۓ گي حتی کہ جس چیزکی عاراس نےاپنے بھائ کودلائ تھی وہ بھی اس کا مرتکب ہوگا لیکن یہ اس وقت ہے جب اس نےاپنے بھائ کوعار اس لیے دلائ کہ وہ اس سے بچا ہوا ہے اورا س نے اس پرخوشی کی ہو ۔ تحفۃ الاحوذی ( 7 / 173 ) ۔
اس حدیث کے ضعیف ہونے کا یہ معنی نہیں کہ کسی گنہگارکو عاردلانی جائز ہے ، اورگناہ کرنے والوں کی کئ قسمیں ہیں :
کچھ توایسے ہوتے ہیں جو توبہ کرکے اللہ تعالی کی طرف لوٹ آتے ہيں ، یاپھران پرحدلگا دی جاتی ہے ، تو ایسے اشخاص پر عیب لگانا اورانہیں عار دلانا جائزنہیں ، اس لیے کہ اس نے اپنے آپ کوتوبہ کرکے یا حد لگوا کرپاک کر لیا ہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
( گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے کسی کا گناہ ہوہی نہ ) سنن ابن ماجۃ حديث نمبر ( 4140 ) اوربوصیری نے اسے صحیح کہا ہے جیسا کہ " الزوائد / حاشیۃ سنن ابن ماجۃ " میں ہے ۔
اورامام احمد رحمہ اللہ نے جوسزا حدیث میں بیان کی گئ ہے اس شخص کے لیے حلال قرار دی جو اس شخص کوعاردلاتا ہے جس نے اپنے گناہوں سے توبہ کرلی ہو ، جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے حدیث کی تخریج کرنے کے بعد امام احمد رحمہ اللہ تعالی عنہ سے نقل کیا ہے کہ :
امام احمد رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے کہ : اس گناہ پر جس سے وہ توبہ کرچکا ہو ۔
اوران میں ایسے گنہگاربھی ہیں جو گناہ کرتے لیکن اعلانیہ نہیں کرتے ، تو اس کے بارہ میں جسے علم ہوجاۓ اس پرضروری ہے کہ وہ اسے نصحیت کرے اوراس کے گناہ پرپردہ ڈالے ،
اورکچھ ایسے ہيں جواپنے گناہ اعلانیہ کرتے ہیں ، تواسے بھی نصحیت کی جاۓ گی ، جس طرح کا تقاضا ہواس شخص سے لوگوں کو بچایا جاۓ ۔
ابن قیم رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
اس کا احتمال ہے کہ وہ یہ چاہتا ہو : آپ کا اپنے بھائ کواس کے گناہ کی عاردلانا اس کے گناہ سے بھی سخت گناہ اور معصیت والا کام ہواس لیے کہ اس میں اطاعت کا اظہاراورتزکیہ نفس اورشکراور گناہ سے برات کا اظہارہے اور آپ کا بھائ اس کا مرتکب ہواہے ۔
اورہوسکتا ہے کہ آپ نے اسے اس کے گناہ کی بنااورجوکچھ اسے ذلت اوررسوائ حاصل ہوئ ہے اس کی بنا پر توڑ کررکھ دیا ہو ، اور تکبر ، دعوی کے مرض سے خلاصی اوراللہ تعالی کے سامنے سرجھکاۓ اور عاجزی و انکساری والے دل کے ساتھ کھڑا ہونا تیری اطاعت کے اظہار اوراس کا بڑھا کربیان کرنے اور اللہ تعالی اوراس کی مخلوق پر احسان جتلانے سے بہتر اور نفع مند ہے ۔
تویہ گنہگاراللہ تعالی کی رحمت کے کتنا قریب ہے ، اوروہ ذلیل اللہ تعالی کے غصہ اورناراضگی کے کتنا قریب ہے ، توایسا گناہ جس سے تواس کے ہاں ذلیل ہواس اطاعت سے اچھا ہے جس کے ساتھ تواس پرجرات کرے ، اوریہ کہ تو رات سوکر گزارے اور صبح کوندامت کرنا تیرا رات قیام کرکے صبح تکبر کرنے سے بہتر ہے ، اس لیے کہ تکبرکرنے والے کے اعمال اوپرنہیں جاتے ۔
اوریہ کہ تواعتراف کرتا ہوا ہنسے تیرے رونے اورجرات کرنے سے اچھا اوربہتر ہے ، اللہ تعالی کے ہاں گنہگارکی آہیں جرات اورتکبرکے ساتھ تسبیح کرنے کی آواز سے زیادہ محبوب ہیں ، اور ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی نےاسے اس گناہ سے ایسی دوائ پلائ ہوجس سےایک قاتل بیماری نکال باہرکی ہو جوتیرے اندرہے جس کا تجھے علم ہی نہیں ۔
اللہ تعالی کی معصیت اوراطاعت کرنے میں اللہ تعالی کے کچھ راز ہیں جنہیں اللہ تعالی کے علاوہ کوئ اورنہیں جانتا جسے اہل بصیرت ہی پاسکتے ہیں اور وہ بھی صرف اتنا کہ جومعارف بشری پاسکیں اور اس کے پیچھے ایسے اسرار ہیں جن پر کراما کاتبین بھی مطلع نہیں ہوسکتے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
" جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کا ارتکاب کرلے تواسے حد لگاؤ اوراسے ملامت نہ کی جاۓ ۔
اورجیسا کہ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائيوں سے کہا تھا آج تم پر کوئ ملامت نہیں
بیشک میزان اللہ تعالی کے ھاتھ میں ہے اورحکم اللہ کا ہی ہے ، تووہ کوڑا جواس گنہگار کومارا گيا ہے وہ دلوں کے پھیرنے والے کے ھاتھ میں ہے ، اور اس مقصد حد لگانا ہےنا کہ عاردلانا اورملامت کرنا ، اورقدراور اس کی طاقت سے بےخوف توصرف جاھل ہی ہوتے ہیں ۔
اللہ تعالی جوکہ اپنی مخلوق کوسب سے زيادہ جانتا اورزیادہ قریب ہے نے فرمایا ہے :
اوراگرہم آپ کوثابت قدمی سے نہ نوازتے تو آپ بھی ان طرف تھوڑا بہت مائل ہوہی جاتے ۔
اوریوسف علیہ السلام علیہ نے فرمایا تھا :
اے اللہ اگرتو ان کے فریب اورہتھکنڈوں کومجھ سے دور نہیں کرے گا تومیں ان کی طرف مائل ہوکر جاہلوں میں ہوجاؤں گا ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عام طور پرقسم اس طرح ہوا کرتی تھی " دلوں کوپھیرنے والے کی قسم "
اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
" سب دل رحمن عزوجل کی انگلیوں کے درمیان ہیں اگر وہ اسے سیدھا رکھنا چاہے تو سیدھا رکھتا ہے اور اگر اسے ٹیڑھا کرنے چاہے توٹیڑھا کردیتا ہے"
پھرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا :
" اللھم مقلب القلوب ثبت قلوبنا علی دینک اللھم مصرف القلوب صرف قلوبنا علی طاعتک " ، اے اللہ اے دلوں کوالٹ پلٹ کرنے والے ہمارے دلوں کواپنے دین پرثابت رکھ اے اللہ اے دلوں کوپھیرنے والے ہمارے دلوں کواپنی اطاعت پر پھیر دے ۔ مدارج السالکین ( 1 / 177 – 178 ) ۔
واللہ تعالی اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد