اگر كسى عورت كو رمضان المبارك كے آخرى عشرہ ميں حيض آنا ہو تو كيا وہ مانع حيض گولياں استعمال كر سكتى ہے تا كہ ان افضل ايام ميں عبادت كر سكے ؟
رمضان كے آخرى عشرہ ميں مانع حيض گولياں استعمال كرنا
سوال: 13738
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ كے سامنے پيش كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
ہمارى رائے ميں اللہ تعالى كى اطاعت ميں معاونت كے ليے وہ يہ گولياں استعمال نہ كرے؛ كيونكہ حيض ايك ايسى چيز ہے جو اللہ تعالى نے آدم كى بيٹيوں پر مقرر كر ديا ہے.
حجۃ الوداع كے موقع عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے عمرہ كا احرام باندھا اور مكہ پہنچنے سے قبل ہى انہيں حيض آگيا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے پاس آئے تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا رو رہى تھيں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم كيوں رو رہى ہو؟ تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بتايا كہ انہيں حيض شروع ہو گيا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: يہ ايك ايسى چيز ہے جو اللہ تعالى نے آدم عليہ السلام كى بيٹيوں پر لكھ دى ہے.
چنانچہ حيض اس كے اختيار ميں نہيں، اگر ماہوارى رمضان كے آخرى عشرہ ميں آ جائے تو اسے اللہ تعالى كى تقدير پر مطمئن رہنا چاہيے، اور وہ يہ گولياں استعمال مت كرے، كيونكہ ميرے علم ميں آيا ہے كہ ميرے معتبر ڈاكٹر نے بتايا ہے كہ يہ گولياں عورت كے رحم اور خون كے ليے نقصان دہ ہيں، اور بعض اوقات بچے كى بدصورتى كا باعث بھى بنتى ہيں، اس ليے ميرى رائے يہى ہے كہ ان گوليوں سے اجتناب كيا جائے، اور اگر حيض آ جائے تو وہ نماز اور روزہ ترك كر دے، كيونكہ يہ اس كے اپنے ہاتھ ميں نہيں، بلكہ اللہ تعالى كى تقدير كے ساتھ ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ