میں نےمندرجہ ذیل حدیث پڑھی ہےجسےبخاری رحمہ اللہ تعالی نےنقل کیاہےلیکن میں اس کامعنی نہیں سمجھ سکا ۔
حدیث بالمعنی یہ ہے( ایک ایسازمانہ آئےگا کہ مسلمان کاسب سےبہترمال اس کی بکریاں ہوں گی وہ فتنہ کی وجہ سےاپنےدین کوبچاتےہوئےانہیں لےکرپہاڑوں کی طرف نکل جائےگا)
گزارش ہےکہ آپ اس حدیث کےمعنی کی وضاحت کریں ۔
فتنہ کےوقت علیحدگی اختیارکرنےکااستحباب اورمسلمان کااپنےدین پرچوف
سوال: 13835
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ
حدیث کی شرح :
اس حدیث کوامام بخاری رحمہ اللہ تعالی نےاپنی صحیح میں کئی ایک مقام پرنقل کیاہےان میں سےکتاب الفتن میں یہ حدیث نمبر۔(7088) ہےجسےابوسعیدخدری رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سےبیان کیاہے ۔
ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( قریب ہےکہ مسلمان کاسب سےبہترمال اس کی بکریاں ہوں جنہیں وہ لےکرپہاڑوں کی چوٹیوں اورپانی کی جگہوں پرچلاجائےتاکہ وہ فتنوں سےاپنےدین کوبچائے )۔
اوراسی طرح امام مسلم نےبھی صحیح مسلم میں ایسی ہی حدیث بیان کی ہے :
ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر پوچھنےلگالوگوں میں سےسب سےافضل کون ہے ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: وہ شخص جوکہ اپنےمال اورجان کولیکراللہ تعالی کےراستےمیں جہادکرے
اس شخص نےکہااس کےبعدکون افضل ہے ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: وہ مومن جوپہاڑوں کےدرمیان گھاٹیوں میں اللہ تعالی کی عبادت کرےاورلوگوں کوشرکی وجہ سےچھوڑدے ۔
صحیح مسلم حدیث نمبر۔(1888)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان: ( شعف الجبال ) یعنی پہاڑوں کی چوٹیاں اور( شعب ) جوپہاڑوں کےدرمیان خالی جگہ گھاٹی ہواسےکہتےہیں ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کاصحیح مسلم کی شرح میں یہ قول ہےکہ: یہاں سےخاص طور پرنفس گھاٹی مرادنہیں بلکہ اس سےمرادانفراد اورعلیحدگی ہےاورشعب کواس لئے ذکرکیا کہ وہ غالب طور پرلوگوں سےخالی ہوتی ہے ۔ا ھـ
شرح صحیح مسلم للنووی جلدنمبر۔(13۔صفحہ نمبر۔34)
تویہ حدیث فتنوں کی کثرت کی بناپراپنےدین پرڈرتےہوئےاس سےبچنےکےلئےلوگوں سےعلیحدگی اختیارکرنےاوراوران کےساتھ میل جول نہ رکھنےکی فضلیت پردلالت کرتی ہے اس لئےکہ اگراس نےلوگوں سےمیل جول رکھاتواپنےدین پرقائم نہیں رہ سکتا۔وہ ان فتنوں کےسبب مرتدہوجائےگایاپھرحق سےہٹ جائےگایاشرک میں پڑجائےگااوریاپھراس کے ارکان اوربنیادی اشیاءترک دےگاوغیرہ ۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی نےفتح الباری میں ذ کرکیاہےکہ:
یہ حدیث اس بات کی دلالت ہےکہ جواپنےدین پرڈرےاس کےلئےعلیحدگی افضل ہے ۔
فتح الباری جلدنمبر۔(13۔صفحہ نمبر۔42)
اورامام سندی نےنسائی کےحاشیہ میں کہاہےکہ:
اس حدیث میں اس بات کاجوازہےکہ فتنوں کےدنوں میں علیحدگی اختیارکرنا جائز بلکہ یہ افضل ہے ۔نسائی حاشیہ سندی جلدنمبر۔(8۔صفحہ نمبر۔124)
اوردوسری حدیث جوابھی ذ کرکی گئی ہےاس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےعلیحدگی اختیارکرنےوالےمومن کوفضیلت میں مجاھدفی سبیل اللہ سےکچھ کم درجہ قراردیاہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالی نےفتح الباری میں کہاہےکہ:
علیحدگی اختیارکرنےوالامومن اس لئے پیچھے ہےکیونکہ وہ جولوگوں کےساتھ میل جول رکھتاہےوہ گناہوں کےارتکاب سےنہیں بچ سکتااورہوسکتاہےکہ یہ گناہ اس کی ان نیکیوں سےزیادہ ہوجائیں جوکہ اسےلوگوں کےمیل جول کیوجہ سےحاصل ہوں ۔
لیکن علیحدگی کی فضیلت فتنوں کےوقت کےساتھ خاص ہے ۔ا ھـ
دیکھیں فتح الباری جلدنمبر۔(6۔صفحہ نمبر۔6)
اورفتنوں کےوقت کےعلاوہ مسلمان کااپنےدین کوبچانےکےلئےلوگوں سےعلیحدگی اختیارکرنےمیں علماءکااختلاف ہے ۔
جمہورکامسلک یہ ہےکہ اس وقت لوگوں سےاختلاط اورمیل جول رکھناعلیحدگی اختیارکرنےسےبہتر ہےاوران کےدلائل یہ ہیں :
1۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوران سے پہلےسب انبیاءعلیہم السلام کایہی حال تھااورجمہورصحابہ ا کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی اسی طرح تھے ۔
دیکھیں شرح مسلم للنووی رحمہ اللہ تعالی جلدنمبر۔(13۔صفحہ نمبر۔34)
2۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:
( وہ مومن جوکہ لوگوں سےمیل جول اوراختلاط رکھتاہےاوران کی تکلیفوں پرصبر کرتاہےوہ اس مومن سےبہتراوراجرمیں بڑاہےجوکہ لوگوں سےمیل جول اوراختلاط نہیں رکھتااوران کی تکلیفوں پرصبرنہیں کرتا )۔
سنن ترمذی حدیث نمبر۔(5207) سنن ابن ماجہ ۔(2 / 493) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نےاس حدیث کوصحیح ترمذی حدیث نمبر۔(2035) میں صحیح کہاہے ۔
امام سندی نےسنن ابن ماجہ پراپنےحاشیہ میں کہاہےکہ:
( حدیث اس بات پردلالت کرتی ہےکہ لوگوں سےمیل جول اورتعلق رکھنےوالااوراس پرصبرکرنےوالاعلیحدگی اختیارکرنےوالےسےافضل وبہتر ہے )
ابن ماجہ حاشیہ سندی ۔ (2/ 493)
اورامام صنعانی نےسبل السلام میں کہاہےکہ:
( اس حدیث میں اس کی فضلیت ہےجوکہ لوگوں سےایسامیل جول رکھتاہےجس میں وہ امربالمعروف اورنہی عن المنکرکا کام کرتارہےاوران سےمعاملات میں بھی اچھا سلوک کرےتووہ اس سےافضل ہےجوکہ علیحدگی اختیارکرتااوراس میل جول پرصبرنہیں کرسکتا ۔ا ھـ )
دیکھیں سبل السلام للصنعانی ۔(4/416)
3۔ابوہریرہ رضی اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ میں سےایک شخص پہاڑوں کےدرمیان گھاٹی میں سےگزراجہاں پرمیٹھے پانی کاچشمہ تھاجوکہ اسےاچھالگاتووہ کہنےلگا: اگرمیں لوگوں سےعلیحدگی اختیارکرکےاس گھاٹی میں رہوں لیکن میں یہ کام اس وقت نہیں کروں گا جب تک کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےاجازت نہ لےلوں تواس نےاس بات کانبی صلی اللہ علیہ وسلم سےذ کرکیاتونبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
( ایسانہ کروکیونکہ تمہاراللہ تعالی کے راستہ میں رہنااس کےگھرمیں نمازپڑھنےسےستر برس بہتراورافضل ہےکیاتم یہ پسندنہیں کرتےکہ اللہ تعالی تمہیں بخش دےاورتمہیں جنت میں داخل کرے ؟ اللہ تعالی کےراستےمیں جہادکروجس نےاللہ تعالی کےراستےمیں اونٹنی کےدودھ دھونےکےدرمیانی وقفےکےبرابر بھی قتال وجہاد کیااس کےلئےجنت واجب ہوگئی ۔)
سنن ترمذی حدیث نمبر۔(1574) اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نےصحیح ترمذی حدیث نمبر ۔(1348) میں اسےحسن فراردیاہے ۔
4 ۔ مسلمان کالوگوں سےمیل جول کی وجہ سےشرعی مصلحتیں حاصل ہوتی ہیں جوکہ بہت نفع بخش ہیں مثلااسلامی اشعارکاقیام ،مسلمانوں کی تعدادمیں اضافہ ،انہیں خیروبھلائی پہنچانا، ان کاتعاون ومددکرناوغیرہ ، جمعہ اورنمازجنازہ میں حاضرہونا ذکرواذکار اوروعظ ونصیحت کی مجالس میں حاضری اوربیمارکی تیمارداری کرناوغیرہ ۔۔۔۔
دیکھیں فتح الباری ۔(13 /43 ۔اورشرح مسلم للنووی ۔13/34)
اوراللہ تعالی ہی توفیق بخشنےوالاہے ۔
اوراللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم پررحمتیں نازل فرمائےآمین ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد