كيا كفار كے ملك ميں بسنے والے مسلمان كے ليے كفار كا مال چرانا حرام ہے؟
حقيقتا وہ شخص جس كے متعلق ميں بات كر رہا ہوں وہ شديد قسم كى بھوك سے دوچار نہيں، اور اسى طرح چورى كردہ اشياء كى اسے ضرورت بھى نہيں ہے، اس طرف اشارہ كرنا ضرورى ہے كہ اس ملك ميں كسى بھى فرد كے ليے مسلمان كى حيثيت ميں بسنا كسى حد تك ممكن ہے، اور اسى طرح اس ميں غلبہ قوى نہيں ؟
كيا كفار كى چورى كرنى جائز ہے ؟
سوال: 14367
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كوئى شخص بھى اس سے جاہل نہيں كہ چورى كرنا كبيرہ گناہوں ميں شامل ہوتا ہے، اللہ سبحانہ وتعالى نے چورى كى حد ہاتھ كاٹنا مقرر كى ہے، اور شريعت اسلاميہ نے اس ميں عورت اور مرد كے مال ميں كوئى فرق نہيں كيا، اور نہ ہى چھوٹے اور بڑے كے مال ميں كوئى فرق كيا ہے، اور نہ ہى مسلمان اور كافر كے مال ميں فرق كيا ہے، شريعت اسلاميہ نے اس سے صرف حربى كافر كے اموال كو مستثنى كيا ہے يعنى جو كافر مسلمانوں كے خلاف جنگ كرے اس كے مال ميں اور مسلمان كے مال ميں فرق ہے.
مسلمان كو چاہيے كہ وہ امانت اور معاہدہ پورا كرنے اور اخلاق حسنہ ميں ايك مثال قائم كرے، مسلمانوں كا ان صفات سے متصف ہونا بہت سے كفار كے قبول اسلام كا سبب بنا، جب ان كفار نے اسلام كے محاسن اور اہل اسلام كى اخلاق كو ديكھا تو قبول اسلام ميں كسى قسم كا تردد نہ كيا.
جو مسلمان كفار كا مال حلال سمجھتا ہے، چاہے وہ مسلمانوں كے ملك ميں ہو يا كفار كے ملك ميں وہ اسلام اور مسلمانوں كى شہرت كو خراب كرنے ميں كفار كے ليے عظيم خدمت سرانجام دے رہا ہے، اور اس سے وہ اسلام ميں طعن و تشنيع كرنے ميں مدد كر رہا ہے.
مسلمان شخص جب كفار ممالك ميں داخل ہوتا ہے تو وہ ايك معاہدے اور امن – جو ملك ميں داخل ہونے كےليے ويزہ كى شكل ميں ہوتا ہے – كے ساتھ داخل ہوتا ہے، لہذا جب وہ كفار كا مال ناحق ليتا ہے، تو چوروں ميں شامل ہونے كے علاوہ اپنے معاہدے كى خلاف ورزى كر رہا ہے.
اور ان كا جو مال چرايا جائے گا وہ حرام ہے، حديث شريف ميں ہے كہ:
مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہم جاہليت ميں كچھ لوگوں كے ساتھ رہے اور انہيں قتل كر كے ان كا مال لے ليا اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئے اور اسلام قبول كر ليا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اسلام تو ميں قبول كرتا ہوں، ليكن مال كے بارہ ميں ميں كچھ نہيں"
اور ابو دواود كى روايت ميں ہے كہ:
" رہا اسلام تو وہ ہم نے قبول كر ليا، ليكن مال وہ غدر اور دھوكہ كا مال تھا اس كى ہميں كوئى ضرورت نہيں"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2583 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2765 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 2403 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور رہا مال تو ميں اس سے كچھ نہيں" يعنى ميں اسے كچھ نہيں كہتا كيونكہ وہ دھوكہ سے حاصل كيا گيا ہے.
اس حديث سے يہ نكلتا ہے كہ:
امن كى حالت ميں دھوكہ دہى كے ساتھ كفار سے مال لينا حلال نہيں ہے؛ كيونكہ ساتھى ايك دوسرے كے ساتھ امانت پر ساتھى بنتے ہيں، اور امانت اس كے مالك كے سپرد كى جاتى ہے چاہے وہ مسلمان ہو يا كافر، اور كفار كے اموال تو صرف جنگ اور غلبہ حاصل كرنے پر حلال ہوتے ہيں، اور ہو سكتا ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مال اس كے پاس اس امكان كے پيش نظر رہنے ديا كہ اس كى قوم مسلمان ہو جائے اور يہ مال انہيں واپس كردے.
ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 341 ).
امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جب مسلمان شخص دار الحرب ميں امان كے ساتھ داخل ہو جائے .. اور ان كے كسى مال پر قادر ہو تو اس كے ليے اسے لينا جائز نہيں چاہے وہ مال قليل ہو يا كثير؛ كيونكہ جب اسے ان كى جانب سے امان حاصل ہے تو پھر وہ بھى اس كى جانب سے امان ميں ہيں.
اور اس ليے بھى كہ ان كى امان ميں رہتے ہوئے اس كے ليے وہى مال حلال ہے جو مسلمانوں اور اہل ذمہ كے مال سے حلال ہے، كيونكہ مال كئى وجوہات كى بنا پر ممنوع ہے.
پہلى وجہ مالك كا مسلمان ہونا.
دوسرى: اہل ذمہ كا مال.
تيسرى: اس شخص كا مال جسے ايك مدت تك امان حاصل ہو، تو وہ اہل ذمہ كى طرح ہى ہے، اس مدت ميں اس كے مال سے ممانعت رہے گى.
ديكھيں: كتاب الام ( 4 / 284 ).
اور سرخسى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ان ( كفار ) سے امن طلب كرنے والے مسلمان شخص كے ليے ان سے غدر كرنا مكروہ ہے كيونكہ غدر حرام ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" قيامت كے روز ہر غدار كے پاس جھنڈا لگايا جائے گا جس سے اس كا غدر پہچانا جائے گا"
لہذا اگر اس نے ان سے غدر كيا اور ان كا مال لے كر دار اسلام منتقل كر ديا تو علم ہونے پر اس سے خريدنا مكروہ ہے، كيونكہ وہ مال برے اور خبيث طريقہ سے كمايا گيا ہے، اور اس سے يہ مال خريدنا اس طرح كے سبب ميں معاونت ہے، جو كہ مسلمان كے ليے مكروہ ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ:
مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ نے جب اپنے ساتھيوں كو قتل كر ديا اور ان كا مال لے كر مدينہ آئے اور اسلام قبول كر ليا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مطالبہ كيا كہ وہ اس مال كا خمس لے ليں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" آپ كا اسلام تو قبول ہے، ليكن تيرا مال غدر كا ہے اس كى ہميں كوئى ضرورت نہيں"
ديكھيں: المبسوط ( 10 / 96 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب