ميرى چھ بہنيں اور پانچ بھائى ہيں ہمارے والد صاحب فوت ہو چكے ہيں، انہوں نے وراثت ميں ايك مكان چھوڑا ہے جو كرايہ پر ديا ہوا ہے، جب ہم نے كرايہ ميں سے اپنا حق طلب كيا تو ہمارا بڑا بھائى ناراض ہو گيا اور ہميں حصہ دينے سے انكار كر ديا، چنانچہ ہم نے عدالت ميں مقدمہ كر ديا تو اس نے كرائے ميں سے ہمارا حصہ دينا تسليم كر ليا، ليكن ہمارے اس فعل سے ناراض ہو كر والدہ كا خرچ بند كر ديا، كيونكہ اس كا ذہن تھا كہ ہميں اپنا حصہ وصول نہيں كرنا چاہيے تھا بلكہ اسے والدہ پر خرچ كرنا چاہيے تھا.
ہم سب بہنيں شادى شدہ ہيں اور كوئى كام بھى نہيں كرتيں، والدہ بيمار ہو كر ہاسپٹل ميں داخل ہوئيں تو بھائى نے اخراجات ادا كرنے سے انكار كر ديا، برائے مہربانى درج امور كى وضاحت فرمائيں:
والدين كا خرچ كس كے ذمہ واجب ہوتا ہے ؟
كيا بھائى كو حق حاصل ہے كہ وہ والدہ پر خرچ كرنے كى دليل دے كر كرايہ ميں سے ہمارا حصہ ركھ لے ؟
كيا استطاعت ہوتے ہوئے بھى بھائى والدہ پر خرچ كرنے سے رك سكتا ہے ؟ حالانكہ والدہ كو اخراجات كى ضرورت ہے؟
كا خرچ بيٹيوں كے ذمہ ہے يا بيٹوں كے ذمہ ؟
سوال: 144721
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جواب :
اول:
اللہ سبحانہ وتعالى كے حكم كے مطابق وراثت تقسيم كرنا واجب ہے، اور اس ميں كوتاہى و زيادتى كرنےسے اجتناب كرنا چاہيے.
اللہ سبحانہ وتعالى نے وراثت كا ذكر كرنے كے بعد فرمايا ہے:
يہ اللہ كى حدودہيں، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى اور اس كے رسول كى اطاعت كرتا ہے، اللہ تعالى اسےايسى جنتوں ميں داخل كريگا جس كے نيچے سے نہريں جارى ہيں، جن ميں وہ ہميشہ رہيںگے، اور يہ بہت بڑى كاميابى ہے
اور جو كوئىاللہ تعالى اور اس كے رسول كى نافرمان كرتا ہے اور اس كى حدود سے تجاوز كرے وہجہنم كى آگ ميں داخل ہوگا، اس ميں ہميشہ كے ليے رہےگا، اور اس كے ليے اہانت آميزعذاب ہےالنساء ( 13 – 14 ).
اس ليے آپ كےبھائى كو اكيلے عمارت كا كرايہ استعمال كرنا اور باقى ورثاء كو اس سے محروم ركھناجائز نہيں.
دوم:
تنگ دست والدينكا خرچ ان كى اولاد پر واجب ہے چاہے بيٹے ہوں يا بيٹياں اگر وہ مالدار ہيں اور انكے اور اولاد كے خرچ سے مال زائد ہے تو انہيں اپنے والدين كا خرچ ادا كرنا ہوگا.
اللہ تعالى كافرمان ہے:
اور تيرے رب كافيصلہ ہے كہ اس كے علاوہ كسى اور كى عبادت مت كرو، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك سےپيش آؤ الاسراء ( 23 ).
اور ضرورت كے وقتوالدين پر خرچ كرنا بھى حسن سلوك ميں شامل ہوتا ہے.
ايك شخص نے نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ:
لوگوں ميں سےميرے ليے حسن سلوك كے اعتبار سے سب سے زيادہ كون حقدار ہے ؟
تو نبى كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ
اس نے عرض كيا:اس كے بعد كون ؟
تو رسول كريم صلىاللہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ
اس نے پھر عرضكيا: پھر كون ؟
تو رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تيرى والدہ
اس نے پھر عرضكيا: پھر كون ؟
تو رسول كريم صلىاللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر تيرا والد “
صحيح بخارى حديثنمبر ( 5971 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2548 ).
عائشہ رضى اللہتعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” يقينا مردكے ليے سب سے پاكيزہ وہ ہے جو وہ اپنى كمائى ميں سے كھاتا ہے، اور اس كى اولاد اسكى كمائى ميں سے ہے “
سن ابو داود حديثنمبر ( 3528 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور ابن منذررحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اہل علمكا اجماع ہے كہ تنگ دست والدين جن كى كوئى آمدنى نہيں اور نہ ہى ان كے پاس مال ہےتو اولاد كے مال ميں ان كا خرچ واجب ہے ” انتہى
ديكھيں: المغنى (8/ 169 ).
اس بنا پر آپ كىوالدہ كا خرچہ عمارت كے كرايہ ميں سے ان كے حصہ ميں سے ادا ہوگا، جو كہ آٹھواں حصہبنتا ہے، اور آپ كو والدہ كو يہ بھى حق ہے كہ وہ اپنا حصہ كسى ايك وارث يا كسىدوسرے كو فروخت كر دے، اور اس مال سے اپنے اخراجات پورے كرے.
اور اگر يہ ماليا كرايہ اس كے اخراجات كے ليے كافى نہيں ہوتا تو پھر اس كى مالدار اولاد كے مالسے خرچ مكمل كرنا واجب ہوگا، چاہے وہ بيٹے يا بيٹياں ہوں.
چنانچہ اگر عورتشادى شدہ ہو اور اس كے اخراجات خاوند پورے كرتا ہے، اور اس كے پاس زيادہ مال وچاہے عمارت كے كرايہ ميں سے ہى تو اس پر اپنى ماں كا خرچ برداشت كرنا لازم ہے.
شيخ ابن جبرينرحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور اگروالدين تنگ دست اور ضرورتمند ہوں اور بيٹى كے پاس اپنى ضرورت سے زائد مال ہو تو اسكے ليے اپنے والدين پر بقدر ضرورت خرچ كرنا لازم ے، ليكن وہ اپنى ضرورت ميں كمىنہيں كريگى ” انتہى
اور يہ خرچ وراثتكے مطابق ہوگا؛ كيونكہ عمومى فرمان بارى تعالى ہے:
اور وارث پر بھىاسى طرح ہے البقرۃ ( 233 ).
آپ كے بھائى كےليے والدہ كے خرچ كى دليل اور بہانہ بنا كر كرايہ ميں سے آپ كا حصہ روك لينا جائزنہيں، بلكہ اسے ہر وارث كو اس كے حصہ كے مطابق رقم دينا ہوگى، اور سب مل كر اپنىوالدہ كے اخراجات پورے كريں، يہ جہاں تك بھى پہنچ جائے پھر بھى ماں كے آپ پر جوحقوق ہيں ان كے برابر نہيں ہو سكتا.
امام بخارى رحمہاللہ نے ادب المفرد ميں ابو بردہ سے روايت كيا ہے كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى نےايك يمنى شخص كو ديكھا كہ وہ اپنى والدہ اپنے كندھوں پر اٹھائے طواف كرا رہا ہے،اور وہ كہہ رہا ہے ميں اپنى ماں كے ليے ايك مطيع اونٹ ہوں، اس نے ابن عمر سے عرضكيا:
كيا آپ سمجھتےہيں كہ ميں نے اپنى ماں كا حق ادا كر ديا ہے ؟
ابن عمر رضى اللہتعالى عنہما نے فرمايا:
نہيں اللہ كى قسمتم نے تو ولادت كے وقت درد كى ايك لہر كا بھى حق ادا نہيں كيا “
الادب المفردحديث نمبر ( 18 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الادب المفرد ميں اسے صحيح قرار دياہے.
الزفرۃتردد نفس كو كہتے ہيں، جو ولادت كے وقت عورت كو پيش آتا ہے.
اس ليے تم اللہسبحانہ و تعالى كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنى اصلاح كرو، اور اپنى والدہ كے متعلقاللہ تعالى كا خوف كھاؤ اور والدہ كا حق ادا كرو، كيونكہ تمہارے حسن سلوك اور صلہرحمى كے ليے والدہ كا حق ہى سب سے زيادہ ہے.
ہمارى دعا ہے كہاللہ تعالى آپ كو سيدھى راہ كى دكھائے اور آپ كو توفيق نصيب كرے.
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب