ميں سويڈن كا ايك مسلمان ہوں اور الحمد للہ پيدائشى ہى مسلمان ہوں، سارى عمر مہذب اور باادب رہا ہوں اور اللہ كا خوف ركھا ہے، كافر معاشرہ ميں رہنے كے باوجود نہ تو كبھى زنا كيا اور نہ ہى كسى دوسرے حرام كام كا ارتكاب كيا ہے.
ميرى پرورش ايك ايسے خاندان ميں ہوئى جس ميں اتفاق نہ تھا ميرے والد اور والدہ آپس ميں جھگڑتے رہتے اور ميرے متعلق شديد سختى كرتے حتى كہ والد صاحب نے مجھے مار مار كر لہولہان بھى كر ديتے، اور مجھے تكليف دينے كے ليے ميرا سر برف ميں ركھتے، اس بنا پر ميرے اندر لوگوں كا خوف سما گيا اور ميں ان كى تصديق نہ كرتا تھا.
اسى طرح نہ تو ميں زنا پسند كرتا ہوں اور نہ ہى جھوٹ بولنا، ميرى بيوى بھى سويڈن كى ايك مسلمان لڑكى ہے، وہ پيدائشى مسلمان ہے بلكہ بعد ميں اسلام قبول كيا ہے ( تقريبا دو برس قبل ) ميں نے مختلف اوقات ميں اسے تين طلاقيں دى ہيں ليكن مجھے يہ علم نہيں كہ آيا وہ مجھ پر حرام ہے يا نہيں ؟
ميں آپ كے سامنے معاملہ كى مكمل تفصيل پيش كرتا ہوں تا كہ آپ ميرى كچھ مدد كريں تفصيل كچھ اس طرح ہے:
آخرى چار برس ميں ميرى بيوى بہت زيادہ تبديل ہو گئى ميں اچانك بيمارى ہوگيا اور خطرناك بيمارى نے آ ليا جس نے جسم كو تباہ كر كے ركھ ديا اور كمزور كرديا، ميں اس كے ساتھ زندگى بسر كرتا رہا كبھى تو ميں محسوس كرتا كہ حالت صحيح ہے، اور كبھى محسوس كرتا كہ ميں اپنى انگلياں بھى نہيں ہلا سكتا.
ليكن ہميشہ تھكان سى محسوس كرتا اور زندہ رہنے كے ليے تقريبا ايك دن ميں بيس سے بھى زيادہ دوائى كى گولياں كھاتا ميرى بيمارى مجھے كمزور ہى كر رہى تھى اور مجھے بےہوشى كرنے كا باعث بھى بن جاتى، جس ميں بہت پريشان ہونے لگا اور ميرے اندر بہت سارى تبديلى آ گئى اور خيالات بھى بدل گئے، اور جسم ميں رعشہ طارى ہو گيا اور قدم بوجھل سے ہو گئے.
اس بيمارى كے باعث ميں نفسياتى مريض سا بن گيا اور بہت زيادہ خوفزدہ رہنے لگا اور ميرے اندر سب كے بارہ ميں منفى سوچ پيدا ہونے لگى حتى كہ ( نعوذ باللہ ) اللہ كے متعلق بھى منفى سوچ پيدا ہونے لگى، اور بعض اوقات ميں اپنے جى ميں اللہ كے متعلق غلط باتيں بھى كرتا، ان غلط افكار اور سوچ سے ميں چھٹكارا نہيں پا سكتا تھا، ليكن يہ افكار اور سوچ زبان پر نہيں آتے تھے بلكہ سوچنے تك ہى محدود رہے.
ميرا كوئى دوست نہيں ہے كيونكہ ميں كسى پر اعتبار نہيں كرتا اور نہ ہى كسى كى تصديق كرتا ہوں اور كسى پر بھروسہ نہيں تھا، ميرا خيال تھا كہ مجھے سب لوگ ہى ناپسند كرتے ہيں، اور اپنے دل ميں مجھے ہميشہ يہ شك سا پيدا رہتا كہ ميں مسلمان ہوں يا كہ كافر ؟
بعض علماء كرام كا كہنا ہے كہ: مجھے جادو كيا گيا ہے يا پھر مجھ پر جن كا سايہ ہے، ميرى زندگى جہنم بن چكى ہے، اور ميں نفسياتى اور جسمانى اور فكرى اور خيلاتى مريض بن چكا ہوں، جس كى بنا پر ميرى ملازمت بھى جاتى رہى اور ميرا مال بھى ختم ہوگيا اور كوئى دوست بھى نہ رہا، حتى كہ ميں اكيلا ہوں، اور معاملہ يہاں تك جا پہنچا ہے كہ بعض اوقات تو ميں اپنے ليے كھانا بھى نہيں پكا سكتا.
ايك روز مجھے ميرى بيوى ملى جسے اللہ نے ميرے ليے بھيجا كہ ميں زندگى كى اميد پيدا كر سكوں تا كہ وہ اس بيمارى اور ميرى زندگى ميں ميرى ممد و معاون بن سكے، ميں نے اس پر اللہ كا شكر ادا كيا كہ اس نے مجھے يہ بيوى عطا فرمائى جس كى مجھے توقع بھى نہ تھى، خاص كر جب ميں جسمانى اور مالى طور پر تباہ ہو چكا تھا اور اكيلا تھا.
ليكن ميں اس نعمت كى حفاظت نہ كر سكا جو اللہ نے مجھے عطا كى تھى، كيونكہ ميرى حالت بہتر نہ تھى، اور ميں زندگى كى سب سے افضل و بہتر اور اچھى چيز اپنى بيوى سے ہاتھ دھو بيٹھا، ليكن مجھے علم نہيں كہ ميں نے اسے كيسے كھويا اور كس طرح يہ نقصان كر بيٹھا ؟
ميں اس كے متعلق شك كرنے لگا تھا اور اس كے بارہ ميں خوفزدہ رہتا تھا، حالانكہ اس كا كوئى سبب بھى نہيں، ميں رات كو اٹھتا تو مجھے اس كے متعلق عجيب و غريب سوچيں آتيں اسى طرح ميں اس سے بغير كسى سبب كے ہى بہت زيادہ جھگڑتا، ميرے ذہن ميں ايك آواز سى آتى جو بيوى كے بارہ ميں ميرے افكار اور سوچ كو خراب كر ديتى اور ميں اسے جھوٹا سمجھنے لگتا اور بيوى پر كوئى اعتبار نہ كرتا.
اس كى كوئى غلطى ديكھتا تو اپنے آپ پر بہت جلد كنٹرول كھو بيٹھتا، اور بہت شديد مخالف ہوجاتا، پھر اچانك ہى مجھ پر رعشہ طارى ہو جاتا اور ميرے پاؤں لڑكھڑانے لگتے اور ميں عجيب و غريب اشياء كے بارہ ميں سوچنے لگتا اور طبعى حالت ميں بولنے كى بھى استطاعت نہ رہتى اور اپنى سوچ اور خيالات سے قصہ گھڑ كر اپنے جى ميں باتيں كرنے لگتا.
اور خوفزدہ و پريشان ہو كر بار بار ايسے كلمات ادا كرنے لگتا ہوں جس كا معنى بھى نہيں جانتا، پتہ نہيں ايسا كيوں ہوتا ہے، اور اسى طرح ميرے خيالات اور تصور ميں زنا كى عجيب و غريب صورتيں اور حرام كام آتے ہيں جسے ميں نے بچپن ميں ديكھا تھا.
ميں بيوى كے معاملہ ميں بہت سخت ہوگيا اور غلط قسم كے شكوك كى بنا پر بھى اسے زدكوب كرنے لگتا، اور اس پر ہاتھ اٹھانے سے باز نہيں رہ سكتا، اللہ كى قسم ميں ان اشياء كا قصد نہيں كرتا اور ايسا كرنے كے بعد بہت روتا ہوں:
1 ـ پہلى طلاق كے بارہ ميں گزارش ہے كہ: ميں بہت ہى شكى مزاج شخص ہوں ميں نے اس سے دريافت كيا كہ آيا تم نے اسلام قبول كرنے سے قبل زنا كيا تھا ؟ تو اس نے اثبات ميں جواب ديا، چنانچہ ميں سارا دن اسى سوچ ميں رہا حتى كہ رات كے وقت ميں برداشت نہ كر سكتا اور زنا كے افكار مجھے ابھارتے رہے حتى كہ مجھے اتنا غصہ آ گيا كہ ميں بيڈ پر ليٹا ہوا تھا تو مجھ پر رعشہ طارى ہو كر پسينہ ميں ڈوب گيا اور عجيب و غريب اور سخت قسم كے كلمات نكالنے لگا، اور بيڈ اور چارپائى پر مارنے لگا، مجھے ايك آواز آئى كہ بيوى كو طلاق دے دو.
بيوى ان دنوں حيض كى حالت ميں نہ تھى، ليكن بعد ميں اس نے بتايا كہ وہ حائضہ تھى اور حيض كى بنا پر اس دن فجر كى نماز بھى ادا نہيں كى تھى، اور كہنے لگى كہ حيض كى حالت ميں طلاق واقع نہيں ہوتى، ليكن مجھے اس معاملہ ميں شك ہے اور خوفزدہ ہوں كہ يہ طلاق واقع نہ ہو چكى ہو.
2 ـ دوسرى طلاق: ميں بالكل نارمل حالت ميں تھا كہ بيوى نے مجھ سے طلاق كا مطالبہ كيا تو ميں نے اسے طلاق دے دى، ميرے خيال ميں يہ طلاق شمار ہو گى.
ـ تيسرى طلاق: شك كى بنا پر ہمارا آپس ميں اختلاف ہو گيا اور اس عجيب و غريب احساس كى بنا پر مجھے بہت غصہ آيا اور ميں عجيب و غريب اشياء كے متعلق سوچنے لگا، اور اپنے اوپر كنٹرول نہ ركھ سكا، مجھے علم نہيں كہ ميں نے ايسا كيوں كيا اور يہ كلمات كيوں كہے، اس كے بعد وہ ڈرنے لگى اور غصہ كرنے لگى، اور مجھے چھوڑنے كا ارادہ كر ليا، ليكن جب ميں نے اسے ايسا كرنے سے منع كيا تو اس نے اپنے والد كو كہا كہ وہ پوليس كو بتائے كہ ميں اسے زدكوب كيا كرتا تھا.
اس طرح پوليس مجھے پكڑ كر قيد كر لےگى اور ميں اپنا علاج بھى نہ كروا سكوں گا اور مجھے ( 200000 ) سويڈى كرونا جرمانہ بھى ادا كرنا پڑےگا، اور ميرى زندگى اور مستقبل تباہ ہو كر رہ جائيگا، مجھے علم ہے كہ ميں اس سے برا سلوك كر تا رہا ہوں اور اسے زدكوب كيا كرتاتھا، ليكن ميرا اپنے اوپر كنٹرول نہ تھا، ميں نے كنٹرول كى كوشش كى ليكن ناكام رہا.
اس كے بعد ميں نے ايك عالم دين سے دريافت كيا كہ مجھے كيا كرنا چاہيے تو اس كے جواب نے مجھے اور پريشان كر ديا اس عالم دين كا كہنا تھا كہ: بيوى كى خوہش كے مطابق مجھے اسے طلاق دينى چاہيے، وگرنہ وہ پوليس كو بتا دے گى، چنانچہ ميں نے بيوى كو ٹيلى فون كيا اور اس سے كہا مجھے اپنے كيے پر افسوس ہے، ميرا تكليف دينے كا كوئى ارادہ و مقصد نہ تھا، اور تم ( پوليس كو بتا كر ) مجھے اذيت و تكليف سے دوچار مت كرو، ميں تجھے ابھى طلاق دينے پر تيار ہوں، ليكن شرط يہ ہے كہ تم مجھے تكليف مت دينا، اور بيوى اور اس كے خاندان كے خوف سے كہ كہيں وہ پوليس كو نہ بتا ديں طلاق كے الفاظ بول ديے، ميں مجبور تھا كہ كہيں ميرى زندگى تباہ نہ ہو جائے.
ليكن اللہ كى قسم ميں اسے طلاق نہيں دينا چاہتا تھا، كيونكہ ميں بيوى سے بہت محبت كرتا ہوں، اور پھر مجھے اس كى ضرورت بھى بہت زيادہ ہے، ميں اس كے بغير مر جاؤں گا كيونكہ ميرا اور كوئى نہيں ميں اكيلا ہوں وہى اكيلى ميرى مدد كرنے والى ہے اور مجھے كھلاتى پلاتى ہے، اور مجھے دوائى بھى ديتى ہے اور ميرى صحت كا خيال كرنے والى ہے، اسى طرح ميں ہاسپٹل ميں بھى نہيں رہ سكتا، اور نہ ہى كسى كو ملازم ركھ سكتا ہوں جو ميرى مدد كرے اور ميرا خيال ركھے.
پوليس رپورٹ اور قيد كے خوف سے طلاق دے دى جائے تو كيا طلاق واقع ہو جائيگى
سوال: 145240
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
سب سے پہلے تو ہمارى يہى دعا ہے كہ اللہ تعالى آپ كو شفا و عافيت سے نوازے اور ہميشہ آپ كو صحت مند ركھے، اور دنيا و آخرت ميں عافيت عطا فرمائے.
ہم آپ كو قرآن مجيد كى تلاوت كرنے، اور روزانہ بلا ناغہ صبح و شام كى دعائيں پڑھنے، اور شرعى دم استعمال كرنے كى نصيحت كرتے ہيں، اور اسى طرح آپ ڈاكٹروں سے مشورہ كرتے رہيں اور نا اميد مت ہوں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ہر بيمارى كا علاج اور دوائى و شفا ضرور نازل كى ہے.
يہ علم ميں ركھيں كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى اپنے بندوں پر رحمت ہے كہ وہ وسوسے اور خيالات ميں بندے كا محاسبہ و مؤاخذہ نہيں كرتا.
جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” يقينا اللہ سبحانہ و تعالى نے ميرى امت سے اپنے جى ميں بات كرنے سے درگزر فرمايا ہے جب تك وہ اس پر عمل نہ كر لے يا پھر زبان سے ادائيگى نہ كر دے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5269 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 127 ).
اس ليے جب آپ ان وسوسوں كو ناپسند كرتے ہيں تو آپ پر كوئى گناہ نہيں، اور اسے ناپسند كرنے اور اس سے ركنے پر آپ كو اجروثواب ہوگا.
دوم:
بعض اہل علم كے ہاں حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا يہى اختيار ہے، اور شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہما اللہ بھى يہى فتوى ديا كرتے تھے.
اس كى تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (72417 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
جب آدمى كو طلاق دينے پر مجبور كر ديا جائے يعنى اگر طلاق نہيں ديتا تو اس كے بدن يا مال ميں اذيت و تكليف دى جائيگى، يا پھر كسى شخص كى جانب سے دھمكى ہو جس كے بارہ ميں غالب گمان ہو كہ وہ شخص اپنى دھمكى پر عمل بھى كريگا، تو اس صورت ميں طلاق واقع نہيں ہوگى.
زاد المستقنع ميں درج ہے:
” جس شخص كو بھى اسے يا اس كى بچے كو تكليف دينے كے ساتھ ظلم كرتے ہوئے طلاق دينے پر مجبور كر ديا جائے يا اس كا اتنا مال لينے كى دھمكى دى جائے جو اس كے ليے نقصاندہ ہو يا پھر كوئى ايك دھمكى دى جائے اور ظن غالب ہو كہ دھمكى دينے والا اپنى دھمكى كو نافذ كرنے پر قادر بھى ہو تو اس كے كہنے كے نتيجہ ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوگى ” انتہى
اس بنا پر اگر آپ كے گمان ميں غالب يہ ہے كہ بيوى اپنى دھمكى پر عمل كريگى اور پوليس كو رپورٹ كر دےگى جس كى بنا پر آپ كو قيد ہو سكتى ہے اور جرمانہ كيا جا سكتا ہے اور آپ طلاق كے علاوہ كوئى طريقہ سے چھٹكارا نہيں حاصل كر سكتے تو آپ كى دى گئى طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ يہ مجبور كردہ كى طلاق ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” صحابہ كرام كا فتوى ہے كہ مكرہ شخص يعنى مجبور كردہ شخص كى طلاق واقع نہيں ہوتى.
عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے صحيح ثابت ہے كہ ايك شخص نے پہاڑ سے شہد نكالنے كے ليے رسى لٹكائى، تو اس كى بيوى آ كر كہنے لگى: مجھے طلاق دو وگرنہ ميں رسى كاٹ رہى ہوں، اس شخص نے اسے اللہ كا واسطہ ديا، ليكن بيوى نے ماننے سے انكار كر ديا، چنانچہ وہ شخص عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا اور يہ واقعہ ذكر كيا، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:
” جاؤ اپنى بيوى كے پاس واپس چلے جاؤ، كيونكہ يہ طلاق نہيں ہے ”
اور پھر على اور ابن عمر اور ابن زبير رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى عدم وقوع بيان كيا گيا ہے ” انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 208 ).
چہارم:
آپ نے اپنى بيوى سے اس كے ماضى ميں كيے گئے گناہ كے بارہ ميں دريافت كر كے غلطى كى ہے، كيونكہ يہ چيز ايسى تھى جس پر اللہ نے پردہ ڈالا ہوا تھا، آپ اس كے بارہ ميں تفتيش كيوں كر رہے ہيں، اور اس كو كيوں تلاش كرتے پھرتے ہيں ؟
اور پھر بيوى كے ليے اس كے بارہ ميں بتانا لازم نہ تھا كہ وہ اس كے متعلق آپ كو بتاتى، بلكہ اس كے ليے اپنے آپ كو رسوا اور ذليل كرنا جائز نہ تھا، بلكہ وہ اس كے متعلق توريہ اور كنايہ استعمال كر سكتى تھى، بلكہ اگر توريہ فائدہ نہ ديتا تو اس كے ليے جھوٹ بولنا جائز تھا.
آپ كو چاہيے كہ آپ اپنى بيوى سے معذرت كريں اور اس كے سامنے واضح كريں كہ يہ سب كچھ آپ كے ارادہ و تصرف كے بغير ہوا ہے، اور آپ ايسے وسائل اختيار كريں جو آپ كو اپنى بيوى كو مارنے اور اذيت دينے سے روكيں، اور آپ اللہ كى اس نعمت كى قدر كريں كہ اس بيوى نے كتنا صبر كيا ہے اور وہ آپ كا كتنا خيال ركھتى ہے.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو شفايابى و عافيت سے نوازے، اور آپ كو ايسے عمل كرنے كى توفيق دے جن سے اللہ راضى ہوتا ہے اور جنہيں پسند فرماتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات