نور اللہ نام رکھنا مکروہ ہے ؛اس سے یہ تصور ذہن میں آتا ہے کہ اس نام والا شخص اللہ کے حقیقی نور سے ہے جو اللہ کی حقیقی صفات میں سے ایک ہے ،اور یہ تصور بالکل غلط اور باطل ہے، یہ نظریہ عیسائیوں اور غالی صوفیوں میں سے حلول کے قائلین کے موقف کا ایک حصہ ہے، جیسا کہ بعض گمراہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے نور سے پیدا کیے گئے ہیں ۔
اور اگر نور اللہ سے مراد اللہ کی مخلوق نور ہے ،تو باوجود اس کے کہ دنیا میں ہر نور کا اللہ ہی خالق ہے اور وہی زمین و آسمان کو منور کرنے والا ہے ،پھر بھی اللہ کی طرف اضافت کر کے نور اللہ نام رکھنا غلط ہے اور اس بارے میں قرآن و سنت کے اسلوب اور مسلمانوں کے متواتر عمل سے متصادم ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“لفظ “نور” کسی ذات کی صفت ہو تو اس کی اضافت اللہ کی طرف کبھی بھی نہیں کی گئی ،چنانچہ دنیا میں جتنے بھی چراغ یا روشنیاں ہیں ان کو “نور اللہ” نہیں کہا جاتا اور نہ ہی سورج اور چاند کو نور اللہ کہا گیا ”
مجموع الفتاوی (6/392)
اس کے علاوہ آخری مفہوم کے اعتبار سے اس میں خود نمائی پائی جاتی ہے، جو کہ شریعت میں منع ہے ۔
شیخ ابن عثیمین کہتے ہیں:
” انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کا نام ایسا نہ رکھے جس میں خود نمائی نہ پائی جائے ”
فتاوی نور علی الدرب(23/228)
مزید سوال نمبر: (1692) کے جواب ملاحظہ فرمائیں ۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے “نور الدائم ” نام رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
“نورالدائم” سے مراد اگر اللہ ہے ؛ کیونکہ ہمیشہ صرف اللہ ہی ہے ،تو ایسا نام تبدیل کر دینا چاہیے تاکہ یہ گمان نہ ہو کہ اس سے وہ نور مراد ہے جو اللہ کی صفت ہے ؛کیونکہ نور کی دو قسمیں ہیں:
1-وہ نور جو اللہ تعالی کی صفت ہے ،تو یہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے ۔
2-نور سے مراد روشنیاں ہیں جو مخلوق ہیں جیسے سورج ،چاند وغیرہ یہ روشنی (کے ذرائع) مخلوق ہیں ۔اور اسلام کا نور بھی مخلوق نور میں شامل ہے۔
چنانچہ اسے چاہیے کہ ایسا نام تبدیل کر دے تاکہ (اللہ کی صفت کا)وہم نہ ہو ” انتہی
دروس مفرغۃ ،الشاملہ (10/29)
واللہ اعلم.