میری ہمشیرہ چودہ سال کی ہو کر فوت ہوئی ہے میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ آیا وہ جنت میں ہے کہ جہنم میں کیونکہ وہ بہت سارے امراض سے دو چار رہی ہے جن میں سے چند مرضیں یہ ہیں اس کا جسم بہت ڈھیلا تھا یعنی اسے زخم بہت جلدی ہوتا جس کی بناء پر خون نکلتا اور یہ خون اس کے جسم پر اندورنی اور بیرونی طور پر اثر انداز ہوا جس کی بناء پر بہت تکلیف اور بہت سے آپریشن بھی ہوئے اس کے ساتھ ساتھ جلدی سرطان اور جگر بڑھا ہوا تھا اور آخری ایام میں اس کے گردے فیل ہو چکے تھے اور چار ماہ تک ان کی صفائی ہوتی رہی جس سے اسے بہت تکلیف برداشت کرنی پڑی اور پھر موت بھی اچانک ہوئی ہے ۔
اس کی ہمشیرہ کا انجام کیا ہو گا جو موت سے قبل خطرناک اور تکلیف دہ امراض کا شکار رہی
سوال: 14567
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
الحمدللہ
اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ اہل قبلہ (کلمہ پڑھنے والوں ) میں سے کسی کو بھی قطعی طور پر جنتی یا جہنمی قرار نہیں دیا جا سکتا الا یہ کہ جس کے متعلق اللہ تعالی یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی گواہی دیں کیونکہ لوگوں میں سے اس بات کی گواہی کا علم ( کہ وہ جتتی یا جہنمی ہے) وحی کے بغیر نہیں ہو سکتا اور وحی کا سلسلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے ساتھ ہی منقطع ہو چکا ہے تو اب نفسوں میں چھپی ہوئی باتوں اور خاتمہ کی حقیقت کو اللہ تعالی جو کہ اس کا خالق ہے کے سوا کوئی نہیں جان سکتا ۔
لیکن یہ بات ہے کہ موحد مسلمان جب وہ کلمہ پڑھتا ہو اس کے حقوق ادا کرتا ہو تو وہ جنت میں ضرور داخل ہو گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے ان گناہوں پر عذاب دے جس کا اس نے اعتراف کیا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے معاف کر دے لیکن آخری وقت وہ جنت میں داخل ہو گا اور اللہ تعالی کے اس وعدہ کی تصدیق ضروری ہے ۔
اور یہ نص سے ثابت ہے کہ مسلمانوں کا وہ بچہ جو بلوغت سے قبل فوت ہو جائے تو وہ اللہ کے نبی ابراہیم علیہ السلام اور ان کی بیوی سارہ کی نگہداشت میں ہو گا اور وہ اپنے والدین کے لۓ قیامت کے دن سفارش کرے گا۔
لیکن جو بلوغت کے بعد زندہ رہے تو اسے اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اگر اچھے عمل ہوں گے تو اچھا اور اگر اچھے نہ ہوئے تو اللہ تعالی کی مشیت پر ہے کہ اگر چاہے تو اسے معاف کر دے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے ۔
اور سوال کرنے والی بہن نے جو اپنی بہن – اللہ اس پر رحم کرے – کے متعلق ذکر کیا ہے کہ جو کچھ اسے تکلیفیں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کا ذکر سوال میں کیا گیا ہے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ یہ اللہ کے ہاں اس کے درجات میں بلندی کا باعث ہوں گے ۔
مومن کو کوئی تکلیف اور غم اور پریشانی پہنجتی ہے تو اللہ تعالی اس کے ساتھ اس کے گناہ مٹا دیتا ہے حدیث سے یہ ثابت ہے کہ جو کوئی پیٹ کی بیماری سے فوت ہو جائے وہ شہید ہے اور قیامت کے دن عافیت رکھنے والے جب دیکھیں گے یہ جو لوگ مصیبتوں میں گرفتار رہے انہیں اجر و ثواب مل رہا ہے تو وہ تمنا کریں گے کاش دنیا میں ان کے جسموں کو قینچیوں سے کاٹا جاتا۔
لہذا ہم آپ کی بہن کے لۓ امید کرتے ہیں کہ اگر وہ ان مصائب پر صبر کرتے ہوئے اور اللہ تعالی پر ایمان کے ساتھ اور اللہ تعالی کے فرائض کو استطاعت کے مطابق پورا کرتے ہوئے فوت ہوئی ہے تو اللہ تعالی کے ہاں اس کے لۓ اجر عظیم اور عزت والی منزلت ہے ۔
اللہ تعالی سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہم اور اس پر رحم کرے بے شک وہ سننے والا اور دعا قبول کرنے والا ہے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد