محمد علوی حسنی مالکی کی کتاب "ابواب الفرج" میں مذکور دعائیں پڑھنا جائز ہے؟ اور کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دکھوں اور پریشانیوں کے لیے دعائیں سکھائیں ہیں؟
دکھوں اور پریشانیوں کے مداوے کے لیے دعائیں
سوال: 149276
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ابواب الفرج نامی کتاب کو ہم نے مکمل طور پر نہیں پڑھا البتہ ہمیں اس میں کچھ ایسی چیزیں نظر آئی ہیں جو کہ بدعت کے زمرے میں آتی ہیں مثلاً: صلاۃ الفاتح، صلاۃ ناریہ، صلاۃ مُنجیہ وغیرہ اور اسی طرح اس کتاب میں مذکور دعاؤں میں غلط الفاظ اور مذموم غلو بھی پایا جاتا ہے۔ مذکورہ نمازوں کے متعلق ہم نے پہلے بھی ویب سائٹ پر گفتگو کی ہے جنہیں آپ سوال نمبر: ( 7505 ) کے جواب میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
جبکہ مشکل کشائی اور حاجت روائی کے لیے مختص دعاؤں میں سے چند ثابت شدہ دعائیں درج ذیل ہیں:
1- مسند احمد: (3528) میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص بھی کسی پریشانی اور غم لاحق ہونے پر کہے: اَللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ، وابْنُ عَبْدِكَ، وابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجِلاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي [ترجمہ: یا اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے اور باندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، مجھ پر تیرے فیصلے جاری ہیں، اور تیرے فیصلے مبنی بر عدل ہیں، میں تجھے تیرے ہر اس نام کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جو تو نے خود اپنا رکھا ہے، یا مخلوق میں سے کسی کو تو نے سکھایا ہے، یا تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے، یا اپنے ہاں علم غیب میں اسے چھپایا ہوا ہے، کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار بنا دے، میرے سینے کا نور بنا دے، اور میرے غموں کا مداوا اور پریشانیوں کے خاتمے کا باعث بنا دے۔] تو اللہ تعالی اس کی پریشانی اور غم ختم فرما دے گا اور اس تنگی کی جگہ فراخی عطا فرمائے گا) اس پر کہا گیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کیا ہم اس دعا کو سیکھ نہ لیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بالکل، جو بھی اس دعا کو سنے وہ اس دعا کو یاد کر لے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ: (199) میں صحیح قرار دیا ہے۔
2-سنن ابو داود: (5090)مسند احمد: (27898) میں سیدنا ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مصیبت زدہ شخص کی دعا ہے: اَللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ أَرْجُو، فَلا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طَرْفَةَ عَيْنٍ، وَأَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ [ترجمہ: یا اللہ! میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، چنانچہ پلک جھپکنے کے برابر بھی مجھے اپنے آپ کے سپرد مت کرنا، اور میرے تمام امور سنوار دے، تیرے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔]اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
3-اسی طرح امام مسلم: (2730) سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کرب کی حالت میں فرمایا کرتے تھے: ( لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ } ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہ بہت عظمت اور حلم والا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہی عرشِ عظیم کا رب ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں، وہی سب آسمانوں کا رب، زمین کا رب اور عرش کریم کا رب ہے۔)
امام نووی رحمہ اللہ "شرح صحیح مسلم" میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
"یہ بہت ہی شاندار حدیث مبارکہ ہے، اس پر بھر پور توجہ دینی چاہیے، اور جب بھی کسی پریشانی اور بڑے مسئلے میں کوئی مبتلا ہو تو اسے کثرت سے پڑھے۔ علامہ طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں: سلف صالحین کثرت سے یہ الفاظ پڑھا کرتے تھے، اور اسے مصیبت زدہ کی دعا قرار دیتے تھے۔ اگر کوئی کہنے والا کہے کہ: یہ تو ذکر ہے اس میں دعا تو ہے ہی نہیں!؟ تو اس کا جواب دو مشہور و معروف طریقوں سے ہے کہ: پہلا یہ کہ: ان الفاظ کے ذریعے دعا کا آغاز کیا جائے گا اور پھر ان الفاظ کو کہنے کے بعد جو چاہے سو مانگے! دوسرا جواب: یہ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے دیا ہے کہ: "کیا آپ نہیں جانتے کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا فرمان ہے: (جو میرے ذکر میں مشغول ہو کر اپنی دعا نہ کر سکے تو میں اسے ذاتی دعائیں کرنے والوں سے زیادہ افضل عطا کرتا ہوں) اسی طرح شاعر کا قول بھی ہے کہ: جب بندہ تیری ایک دن ثنا خوانی کر لے تو اسے اس دن دعا مانگنے کی ضرورت نہیں ہوتی" ختم شد "
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات