0 / 0
3,37923/07/2012

مہمانوں كا استقبال كرنے كے ليے عدت والى عورت كا ساتھ والے بھائى كے گھر جانا

سوال: 152188

ميرا خاوند فوت ہوگيا اور ميں مفتى حضرات كى رائے كے مطابق اپنے والدين كے گھر عدت گزار رہى ہوں، ملنے والوں كى كثرت سے ميرى والدہ تنگ ہوتى ہيں، ميرا بھائى والد صاحب كے گھر سے ساتھ ہى رہتا ہے اور ديوار بھى مشترك ہے كيا ميرے ليے آنے والوں كو ملنے كى خاطر بھائى كے گھر جانا جائز ہے تا كہ والدہ تنگ نہ ہو، مہمانوں كے جاتے ہى ميں اپنے گھر واپس آجاؤنگى، ديوار كے ساتھ ديوار ہے اور ميں بغير حجاب كے جا سكتى ہوں كيا ايسا كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

بيوہ عورت اپنى عدت كے دوران دن كے وقت حاجت كے ليے اور رات ميں ضرورت كى بنا پر گھر سے باہر جا سكتى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عدت والى عورت كے ليے دن كے وقت اپنى ضروريات كى خاطر گھر سے باہر جانا جائز ہے، چاہے وہ عدت طلاق كى ہو يا خاوند فوت ہو جانے كى؛ كيونكہ جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميرى خالہ كو تين طلاق ہو گئيں تو وہ اپنى كھجور كا پھل توڑنے باغ ميں گئيں تو ايك شخص نے انہيں روكا، چنانچہ انہوں نے اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ذكر كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم جاؤ اور اپنى كھجور توڑو، اميد ہے تم اس سے صدقہ كرو يا كوئى خير كا كام كرو "

اسے نسائى اور ابو داود نے روايت كيا ہے.

اور امام مجاہد رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے:

" جنگ احد ميں كچھ اشخاص شہيد ہوگئے تو ان كى بيوياں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئيں اور عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم: رات كے وقت ہميں وحشت ہوتى ہے اور ہم وحشت كا شكار ہو جاتى ہيں، كيا ہم سب اكٹھى ہو كر كسى ايك كے گھر رات بسر كر ليا كريں؟ اور صبح ہوتے ہى ہم جلدى سے اپنے گھر چلى جايا كريں ؟

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم سب اكٹھى ہو كر ايك كے پاس جا كر باتيں كيا كرو اور جب تم سونا چاہو تو ہر ايك اپنے گھر چلى جائے "

اس ليے بغير كسى ضرورت كے عدت والى عورت كسى دوسرے كے ہاں رات بسر نہيں كر سكتى، اور نہ ہى وہ رات كو گھر سے باہر نكل سكتى ہے، كيونكہ دن كے مقابلہ ميں رات فتنہ و خرابى كا زيادہ محل ہے، كيونكہ دن ميں تو لوگ معاش اور ضروريات پورى كرتے ہيں، اور حاجت كى اشياء كى خريدارى كرتے ہيں " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 130 ).

مستقل فتوى كميٹى سعودى عرب كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" اصل يہى ہے كہ عورت اپنے خاوند كے اسى گھر ميں عدت بسر كرے جہاں خاوند كى فوتگى كى اطلاع ملى تھى، اس گھر سے وہ بغير كسى حاجت و ضرورت كے نہيں نكل سكتى؛ مثلا بيمارى كى حالت ميں ڈاكٹر كے پاس ہاسپٹل وغيرہ جانا، اور اگر كوئى دوسرا خريدارى كرنے كے ليے نہ ہو تو خود روٹى وغيرہ بازار سے خريدنے جانا " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 440 ).

اس بنا پر اگر آپ كى والدہ كو تنگى اور اذيت ہوتى ہو تو آپ كے ليے دن كے وقت مہمانوں كے ملنے كے ليے اپنے بھائى كے گھر جانا جائز ہے.

عدت والى خاتون كو جن اشياء كى ممانعت ہے اسے معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 10670 ) اور ( 128534 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android