میرے لئے انتہائی مسرت کا مقام ہے کہ میں آپ لوگوں کو یہ سوال بھیج رہا ہوں جنہوں نے شریعت اسلامیہ کی خدمت ، شرعی مسائل کے حل اور مسلمانوں کو ہمہ قسم کے فتنوں سے دور رکھنے کیلئے اپنے آپ کو وقف کیا ہوا ہے، میں بالکل صراحت سے کہنا چاہتاہوں کہ مجھے دینی ، فکری، اور معاشرتی مسائل کے بارے میں جاننے اور پڑھنے کا بہت زیادہ شوق ہے، اسی شوق کی وجہ سے میں اکثر اوقات ورطہ حیرت میں پڑ جاتا ہوں اور معاملات کو سلجھا نہیں پاتا، چنانچہ آپ -اللہ تعالی آپکو نفسانی شر سے محفوظ رکھے-مجھے اس حدیث کے بارے میں کیا کہیں گے جو صحیح مسلم کتاب الوصیۃ باب “اس شخص کے بارے میں جسکے پاس قابل وصیت چیز نہ ہو تووہ وصیت نہ کرے”: حدیث نمبر: 4319، ہمیں سعید بن منصور ، قتیبہ بن سعید ، ابو بکر بن ابی شیبہ، اور عمرو الناقدنے حدیث بتائی -یہ الفاظ سعید کے ہیں-اور ان سب نے سفیان سے، انہوں نے سلیمان الاحول سے وہ سعید بن جبیر سے،وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: جمعرات کا دن، تمہیں کیا معلوم جمعرات کا دن کیا تھا؟!، یہ کہہ کر اتنا روئے کہ کنکریاں بھی آپ کے آنسوؤں سے تر ہوگئیں، میں نے کہا: ابن عباس! کیا تھا جمعرات کے دن؟ انہوں نے کہا: جمعرات کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید تکلیف تھی، آپ نے فرمایا تھا: “مجھے کچھ لادو، میں تمہیں ایسی تحریر لکھوا دیتا ہوں کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہوگے” چنانچہ یہ معاملہ متنازعہ ہو گیا، حالانکہ نبی کی موجودگی میں تنازع کی کوئی گنجائش نہیں، اورحاضرین مجلس لگے:آپ خیریت سے تو ہیں؟!، کیا آپ بہکی ہوئی بات کر رہے ہیں؟!، آپکی بات سمجھنے کی کوشش کرو، آپ نے فرمایا: “میری حالت کو چھوڑو، میں جس حال میں بھی ہوں خیریت سے ہوں، میں تمہیں تین چیزوں کی وصیت کرتا ہوں، مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو، اور وفود کا مکمل احترام کرو، جیسے میں کرتا تھا” ابن عباس کہتے ہیں: آپ نے تیسری بات یا تو بتائی ہی نہیں یا میں بھول گیا ہوں۔
اس حدیث کی ایک اور سند بھی ہے حدیث نمبر (4321) اسحاق بن ابراہیم کہتے ہیں ہمیں وکیع نے بتلایا انہیں مالک بن مغول نے اور انہیں طلحہ بن مصرف نے انہوں نے سعید بن جبیر سے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: جمعرات کا دن، تمہیں کیا معلوم جمعرات کا دن کیا تھا! پھر آپکے آنسو جاری ہوگئے، اور آپکے رخسار پر موتیوں کی لڑی کی طرح آنسو بہنے لگے، پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے دوات و قرطاس -یا کندھے کی ہڈی اور دوات لاکر دو- میں تمہیں ایسی تحریر لکھوا دیتا ہوں کہ جس کے بعد تم کبھی بھی گمراہ نہیں ہوسکو گے” سب کہنے لگے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں چھوڑے جا رہے ہیں؟!۔
اگر یہ حدیث درست ہے تو مجھے اس کا معنی اور مفہوم بتلا دیں، کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں زبان درازی کرنا درست ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کسی درست کام سے روک بھی سکتا ہے؟کیا -نعوذ باللہ-ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا محاسبہ کر سکتے ہیں کہ آپ بہکی ہوئی باتیں کر رہے ہیں، جیسے ہم ایک دوسرے کا کرتے ہیں؟
حدیث (مجھے کچھ لادو میں تمہارے لئے ایسی تحریر لکھوا دوں کہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہوسکو گے)
سوال: 154865
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں
سب سے پہلے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ، آپکواور تمام مسلمانوں کو اطاعتِ الہی اور دین کی خدمت کرنےکی توفیق عنائت فرمائے۔
ہماری نصیحت ہے کہ آپ دین کے بنیادی عقائد ارکان ِاسلام اور ارکانِ ایمان کو پختگی سے تھام لیں، ایسے ہی کتاب و سنت کی سینکڑوں نصوص سے مستنبط شرعی و فقہی قواعد وضوابط اور مقاصدِ عامہ کو بھی اچھی طرح سمجھیں، انہی نصوص کے ذریعے اللہ تعالی نے دین کو ہمہ قسم کے تغیّر و تبدّل سے محفوظ رکھا ہے، اور انہی کے ذریعے ہر شخص اپنے لئے حفاظتی حصار قائم کرسکتا ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے: (هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آَيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آَمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ)ترجمہ: وہی تو ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی۔ جسکی کچھ آیات تو محکم ہیں اور یہی (محکمات) کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات ہیں۔ اب جن لوگوں کے دل میں کجی ہے (پہلے ہی کسی غلط نظریہ پر یقین رکھتے ہیں) وہ فتنہ انگیزی کی خاطر متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔ اور انہیں اپنے حسب منشا معنی پہنانا چاہتے ہیں حالانکہ ان کا صحیح مفہوم اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ اور جو علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان (متشابہات) پر ایمان لاتے ہیں۔ ساری ہی آیات ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں۔ اور کسی چیز سے سبق تو صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔ آل عمران:7
بچاؤ کا ذریعہ صرف کتاب ہی میں نہیں بلکہ عمومی طور پر تمام کے تمام علوم فطری طور پر محکم اورمضبوط بنیادوں قائم ہوتے ہیں، جنہیں اہل فن بخوبی جانتے ہیں، پھر کچھ بھی ان اصولوں کے مخالفت میں سامنے آئے انہیں کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آتی،کیونکہ عقلی اور شرعی ہر اعتبار سے کسی بھی مسلّمہ قاعدہ کلیہ کو ٹامک ٹویاں مارکر گرایا نہیں جاسکتا۔
علمی شرعی میدان ہو یا انسانی علوم کا اس سوچ اور فکر کو پسِ پشت ڈالنے کی وجہ سے بہت سے مفکرین غلطیاں کرتے ہیں، آپکو کچھ ایسے لوگ بھی ملیں گے جو چند نصوص کو اپنی دلیل بنانے میں سیاق و سباق کا خیال نہیں کرتے اور اپنی ذاتی رائے میں قید ہوکر گفتگو کے اصل تناظر کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ وہ کس تاریخی یا لُغوی تناظر میں کہی گئی ہے ، جیسے بعض مستشرقین نے احادیث کے پورے خزانے کو مشکوک بنانے کی ناکام کوشش کی، یہ نہیں دیکھا کہ سینکڑوں ہزاروں صفحات جنہیں محدثین کرام نے اپنے خون پسینے کو ایک کرکے لکھا، احادیث مبارکہ کو من و عن پہنچانے کیلئے مال وعمر کی قربانی دی، اور اس گھناؤنی سازش کیلئے دلیل کیا دی! فلاں کی کتاب گم ہوگئی تھی، فلانے راوی پر تہمت لگائی گئی تھی، اور یہ کہ چند ایک روایات موضوع ہیں، انکی مثال تو اس بچے جیسی ہے جو سارے جہان کو اپنے والدین پر پرکھتا ہے، جب بھی کوئی خاتون نظر آئے وہ اسی اپنی ماں سمجھتا ہے، اور کسی مرد کو دیکھے تو ہمیشہ اپنے والد کو اس سے افضل جانتا ہے۔
دوسری بات:
اب آتے ہیں آپکے سوال کے جواب کی جانب، سابقہ بیان شدہ معتدل نظر سے دیکھیں، اور پھر صحابہ کرام کی شان میں نازل شدہ قرآن مجید کی دسیوں آیات اور انکے دل میں ذاتِ مبارکہ اور مقامِ نبوت پر دلالت کرنے والی سینکڑوں احادیث مبارکہ پر مسئلہ کو پرکھیں ، پھر صحابہ کرام کی جانثاری اور قربانیوں کے ذکر سے پھرپور سیرت پر لکھی گئی کتب کا مطالعہ کریں کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کیا کچھ کیا ، اور آخر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کا مقارنہ کریں، امید ہے اس کے بعد آپکو کسی تفصیلی جواب کی ضرورت نہیں رہے گی،کیونکہ مذکورہ بالا قاعدہ اس بات کا متقاضی ہے کہ شبہات سے بچا جائے اور محکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا جائے۔
شاطبی رحمہ اللہ نے “الموافقات” میں (3/260) کہا: “حالات و واقعات اور انفرادی معاملات کسی قاعدہ عامہ یا مطلقہ پر مؤثر نہیں ہوتے”اسکے بعد انہوں نے اس قاعدے کیلئے دلائل ذکر کرتے ہوئے بہت عمدہ گفتگو کی ہے، اس کو پڑھنا بھی مناسب ہوگا۔
دوسری بات:
مزید تسلی اور اطمینان کیلئے کچھ تفصیلی جواب بھی آپ کیلئے پیشِ خدمت ہے، اور یہ تفصیلی جواب کسوٹی کی حیثیت رکھتا ہے آپکو کوئی بھی شبہ لاحق ہو تو اس کسوٹی پر اسے پرکھیں ۔
اس واقعے کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت بیماری کے دوران اپنے ارد گرد موجودصحابہ کرام سے کہا مجھے قلم وقرطاس لا دو ، کہ میں ایسی تحریر لکھوا دوں جس میں میرے بعد امت کیلئے راہنمائی ہو، آپ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی۔
چنانچہ حاضرین مجلس میں بعض نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کو دیکھا کہ آپ شدید تکلیف میں ہیں، تو انہوں نے کچھ تامل کیا، اور اپنی راہنمائی کیلئے قرآن مجید کافی سمجھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشقت کی زحمت نہ دی، یہ عمر رضی اللہ عنہ تھے جیسے کہ صحیح بخاری (114)میں ہے:(نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت شدید تکلیف ہے، اور ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے)
لیکن دیگر صحابہ کرام نے تحریر کیلئے قلم و قرطاس حاضر کرنے کا اصرار کیا، تا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا پوری کی جاسکے۔
اسکے بعد دونوں گروہوں میں کچھ اختلاف بھی ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر دوبارہ مطالبہ نہ کیا، اور پھر زبانی صحابہ کرام کو جامع وصیت کی جیسے کہ سوال میں بھی اسکا ذکر ہے۔
روایات کا یہی خلاصہ ہے، اس قصہ کو سمجھنے کیلئے سیاق وسباق کافی ہے، اور اس میں کسی کیلئے بھی کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا ، لیکن بعض لوگ ہٹ دھرمی کرتے ہوئے اس بات پر مُصِر ہیں کہ اس میں صحابہ کرام نے مقام نبوت پر زبان درازی کی ہے! اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کیلئے پیغام پہنچانے سے روکا!!
یہ سوچی سمجھی سازش ہے،جو ہوس و شیطان ہی کی پیروی ،اور الفاظ میں تحریف ہے، اسکی ایک چھوٹی سی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر غیض و غضب میں بھی نہ آئے، جن لوگوں نے قلم و قرطاس لانے میں سستی کا اظہار کیا انہیں ڈانٹ بھی نہیں پلائی، پھر عام طریقہ کار کے مطابق اللہ تعالی نے بھی قرآن مجید میں انکا پول بھی نہیں کھولا، بلکہ کچھ نہ کہا اورانہیں برقرار رکھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوبارہ مطالبہ نہیں کیا۔
ان تمام باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بغضِ صحابہ سے بھرے لوگوں کی بیان شدہ تفصیلات کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ ہلکا سا اختلاف تھا جیسے کہ پہلے بھی اس قسم کے اختلافات رونما ہوئے تھے، مثلا: حدیبیہ کے مقام پر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کھولنے اور حلال ہونے کا حکم دیا تو انہوں کچھ تاخیر اس لئے کی کہ شاید عمرہ کرنے اور احرام نہ کھولنے کے بارے میں وحی نازل ہو جائے، ایسے ہی بدر کے قیدیوں کے بارے میں ہوا تھا، ان تمام مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے اسکے باوجود آپ نے خاموشی اختیار کی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ “منہاج السنہ”میں صفحہ (6/26)پر کہتے ہیں: “اگر تحریر کرنا ضروری ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی پرواہ کئے بغیر اسے ضرور لکھواتے اور بیان کرتے، آپ کے تحریر نہ کروانے سے پتہ چلتا ہے کہ تحریر کروانا ضروری نہ تھا، اگر ضروری ہوتا تو آپ ضرور لکھواتے۔ مختصراً
مازری رحمہ اللہ کہتے ہیں -جیسے کہ ان سے ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری صفحہ: (8/134)میں نقل کیا- “صحابہ کرام کیلئے کتابت کے معاملے میں اختلاف جائز تھا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح حکم بھی دیا،کیونکہ کبھی کبھی حکم کے ساتھ کچھ ایسے قرائن پائے جاتے ہیں جو اسے وجوب سے پھیر دیتے ہیں، تو اسلئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کچھ ایسے قرائن صادر ہوئے جنکی بنا پر صیغہ امر کا وجوب ختم ہوکر اختیار میں تبدیل ہوگیا، اسکے بعد صحابہ کرام کے اجتہاد میں اختلاف پیدا ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ اپنی بصیرت کے مطابق منع کرنے پر مُصِر رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات منوانے نے کیلئے نہیں کہی ، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ یا تو وحی کے ذریعہ ہوتا ہے یا پھر اجتہاد کے ذریعے، اور آپ نے دوبارہ مطالبہ بھی یا تو وحی کی وجہ سے نہیں کیا یا پھر اجتہاد کی وجہ سے، اس بات میں شرعی مسائل میں اجتہاد کے قائلین کیلئے بھی دلیل ہے” انتہی
ڈاکٹر ابراہیم الرحیلی حفظہ اللہ اپنی کتاب “الانتصار للصحب و الآل”میں کہتے ہیں:
“اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا آپس میں اختلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کو اپنے اجتہاد سے سمجھنے کی وجہ سے ہوا، بالکل بعینہ صحابہ کرام کے بعد علمائے امت سے بھی نصوص کو سمجھنے کیلئے اجتہاد کرتے ہوئے غلطیاں ہوئی ہیں جسکی وجہ سے ایک مسئلہ میں مختلف اقوال منقول ہیں، چنانچہ کسی عالم کو اس اختلاف کے باعث مذمت کا نشانہ نہیں بنایا گیا کیونکہ اجتہاد میں غلطی ہونے پر کوئی حرج نہیں آتا اس پر بہت سے دلائل موجود ہیں،بلکہ ان علماء اجتہاد کو بیان کیا گیا، تو صحابہ کرام کو ایک جزئی مسئلہ میں اختلاف کے باعث کیوں مذمت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معذور سمجھتے ہوئے ڈانٹا بھی نہیں، بلکہ کتابت سے منع کرنے والے گروہ کی بات مانتے ہوئے کسی قسم کی تحریر نہیں لکھی، پھر اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی کہ تمام اہل سنت اور رافضیوں کے نزدیک آپ اس واقعہ کے بعد بھی چند دن زندہ رہے لیکن آپ نے کوئی تحریر نہیں لکھوائی حالانکہ اگر آپ کتابت کا پختہ عزم کرتے تو کوئی بھی آپکو منع نہیں کر سکتا تھا”
تیسری بات:
ایک روایت کے الفاظ (أهجر ؟! استفهموه) کی بنیاد پریہ کہنا کہ کچھ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہک جانے کاالزام لگایا، اس قصہ میں ایک اور جھوٹ اور افتراء بازی ہے، اسکی وضاحت یہ ہےکہ :
زیادہ سے زیادہ (أهجر ؟!) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سےبہکی ہوئی بات صادر ہونے میں شک ہے- “هجر” کا مطلب ہے غیر واضح گفتگو – یہ بات یقینی طور پر نہیں کہی گئی، چنانچہ تمام محدثین کے ہاں جس روایت میں صیغہ استفہام آیا ہے وہی درست ہے،مثلا: قاضی عیاض “الشفا” (2/886) میں، قرطبی، “المفھم” (4/559) میں ، نووی “شرح مسلم” (11/93) میں اور ابن حجر “فتح الباری” (8/133) میں بیان کرتے ہیں، جبکہ استفہام شک پر دلالت کرتا ہے یقین پر نہیں۔
پھر اسکے بعد ہم کہتے ہیں کہ یہ شک بھی درست نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی بات سوچنا مناسب نہیں، چونکہ یہ شک ایک شبہ کی وجہ سے پیدا ہوا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ سلم سخت بیمار تھے، آپکو عام لوگوں سے دُگنا بخار تھا، جسکی وجہ سے کئی بار آپ پر غشی بھی طاری ہوئی، یہ سب کچھ صحیحین میں موجود ہے، چنانچہ ان الفاظ کو کہنے والے نے سمجھا-روایت میں اسکا نام نہیں ہے، صحیح روایات میں مبہم ہے-کہ سخت بیماری نے آپکو یہاں تک پہنچا دیا ہے، حالانکہ اسکا یہ گمان درست نہیں ، اگرچہ سیاق و سباق کے ذریعے اس قائل کیلئے عذر ثابت کیا جاسکتا ہے۔ دیکھیں: “منہاج السنۃ النبویہ”(6/24)
یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسی بھی روایت میں حاضرین ِ مجلس کی جانب سے اس بات کے کرنے والے کو سرزنش کرنے کا تذکرہ نہیں ملتا، بلکہ خود ان الفاظ کے راوی ابن عباس -جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں-ان الفاظ کے قائل پر بغیر کسی تحفظ ظاہر کئے انکو بیان کیا،کیونکہ آپ اس شخص کو شدید پریشانی کے باعث معذور سمجھتے تھے، ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں سب سے محبوب ترین شخصیت تھے۔
ایسے ہی یہاں ایک اور ممکنہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ قائل نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت بیمار ہونیکی وجہ سے غم میں مدہوش ہوکر کہی ہو، اور اس دوران اسے پتہ ہی نہ چلا ہو کہ وہ کیا الفاظ کہہ رہا ہے، یہ کتنے گہرےالفاظ ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع آپکی وفات کا ہی انکار کردیا، اور یہ سمجھے کہ آپ فوت ہونے کے بعد دوبارہ واپس آئیں گے۔
قرطبی “المُفھم”(4/560)میں کہتے ہیں:
“اور یہ بھی احتمال ہو سکتاہےکہ : قائل نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچنے والی شدید تکلیف کی وجہ سے مدہوشی اور ورطۂِ حیرت میں جاکر کہی ہو، جیسے کہ عمراور دیگر صحابہ کرام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر ہوا” انتہی
ایسے ہی شیخ عثمان الخمیس اپنی کتاب “حقبۃ من التاریخ” (ص/ 318-321)میں کہتے ہیں کہ: “رافضیوں کا اس حدیث کی بنیاد پر اصحاب رسول کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا جھوٹی تہمت پر قائم ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: “إن رسول الله يهجر”کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں، یہ عمر رضی اللہ عنہ پر صراصر بہتا ن ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے قطعاً یہ نہیں کہا کہ آپ بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں، بلکہ صحیحین وغیرہ کی روایت کے مطابق عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید تکلیف کا غلبہ ہے”آپ نے یہ اسوقت کہا جب مرض الموت انتہائی شدت اختیار کرچکا تھا، اس شدت کی وضاحت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت بھی کرتی ہے کہ جب آپ کو غشی طاری ہونے کے بعد کچھ افاقہ ہوا تو آپ نے پوچھا: “کیا لوگوں نے نماز ادا کرلی ہے؟”عائشہ نے جواباً کہا: اللہ کے رسول لوگ آپکے انتظار میں ہیں، آپکے لئے پانی لایا گیا اور آپ نے غسل کیا، پھر آپ نماز کیلئے کھڑے ہونے لگے لیکن آپ پر غشی طاری ہوئی اور آپ گر گئے، پھر آپکو کچھ افاقہ ہوا، پوچھا : “کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟”انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! لوگ آپ کی انتظار میں ہیں ، آپ نے فرمایا: “پانی میرے قریب کردو”چنانچہ پانی لایا گیا، اور آپ نے غسل فرمایا، پھر دوبارہ نماز کیلئے اٹھ کر جانے لگے تو گر گئے، پھر تیسری بار بھی یوں ہی ہوا، جب افاقہ ہوا تو آپ نے پوچھا: “لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے؟” انہوں نے کہا: آپکا انتظار کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا: “ابو بکر کو کہو لوگوں کو نماز پڑھا ئے” متفق علیہ
حاضرین میں سے کسی نے یہ ضرور کہا ہے کہ ” أهجر “کیا آپ بہکی ہوئی بات کر رہے ہیں، لیکن اس بات کے قائل عمر نہیں ہیں۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کو بخار کی وجہ سے شدید تکلیف ہے، تو شفقت بھرے انداز میں کہا: یا رسول اللہ! آپکو بہت ہی شدید بخار ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ہاں مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر تکلیف ہو رہی ہے” تو ابن مسعود کہنے لگے: کیا یہ اس لئے ہے کہ آپکو دوہرا اجر ملےگا؟ فرمایا: “ہاں” متفق علیہ، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بخار کی وجہ سے شدید تکلیف تھی، اسی لئے جب عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: “میرے پاس لاؤ ، میں تمہیں تحریر لکھوا دیتا ہوں” تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے شفقت بھر انداز میں کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے، آپکو مزید تکلیف مت دو، ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے۔
یہ بات فرمانِ الہی: ( اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا ) ترجمہ: “آج کے دن میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اور اپنی نعمتیں بھی پوری کردی ہیں اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا ہے” کے بالکل موافق ہے، ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا تھا: “اللہ کی قسم! میں نے تمہیں جنت کے قریب کرنے والی تمام اشیاء سے باخبر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اسی طرح اللہ کی طرف سے کئے جانے والے تمام احکامات پر تمہیں عمل کا حکم بھی دے دیا ، اور جس جس شیء سے اللہ نے تمہیں روکا ہے میں نے تمہیں اس سے روک دیا ہے” نسائی حدیث نمبر(2719) چنانچہ دین سے متعلقہ کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ بتلائی ہو۔
پھر یہ کونسی سی تحریر تھی جو آپ لکھوانا چاہتے تھے؟
اسکی وضاحت کیلئے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ نے مجھے حکم دیا کہ میں کندھے کی ہڈی لیکر آؤں،تا کہ اس میں ایسی تحریر لکھ دیں جسکی وجہ سے امت آپ کے بعد گمراہ نہ ہو۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: “مجھے ڈر لگا کہ کہیں میرے کچھ لانے سے پہلے آپ فوت نہ ہوجائیں”، چنانچہ میں نے کہا: “یا رسول اللہ! میں اچھی طرح یاد کرسکتاہوں بھولوں گا نہیں” ، پھر آپ نے فرمایا: “میں تمہیں نماز ، زکاۃ، اور تمہارے تحت کام کرنے والوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں”) بیہقی (5/17) ، مسند احمد (1/90)
چنانچہ اگر زبان درازی کرتے ہوئے رافضہ یہ کہیں کہ صحابہ کرام نےحکم عدولی کرتے ہوئے کتابت کیلئے کچھ نہ لائے، تو ہم کہتے ہیں کہ : علی رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے حکم عدولی کی، کیونکہ انہیں براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھاکہ لکھنے کیلئے کچھ لے آؤ، تو علی رضی اللہ عنہ کیوں نہیں لے کر آئے؟لہذا اگر صحابہ کرام کو زبان درازی کا نشانہ بنانا ہے تو علی رضی اللہ عنہ کو بھی نشانہ بنائے جائے!!
اور حق بات یہ کہ کسی کو بھی ملامت کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا،اسکی کئی وجوہات ہیں:
1- علی رضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں خود کہا: ” مجھے ڈر لگا کہ کہیں میرے کچھ لانے سے پہلے آپ فوت نہ ہوجائیں، چنانچہ میں نے کہا: “یا رسول اللہ! میں اچھی طرح یاد کرسکتاہوں بھولوں گا نہیں” ، پھر آپ نے فرمایا: “میں تمہیں نماز ، زکاۃ، اور تمہارے تحت کام کرنے والوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں” اس روایت میں جس بات کو لکھوانے کا ارادہ تھا وہ آپ نے زبانی فرما دی۔
2- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس تحریر کا ارادہ کیا تھا اسکی دو حالتیں ہو سکتی ہیں، کہ تحریر کروانا آپ پر واجب تھایا پھرمستحب، اگر یہ کہیں کہ آپ پر تحریر کروانا واجب تھا ، تو اسکا مطلب ہے کہ آپ نے مکمل شریعت نہیں پہنچائی، اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید طعن ہےبلکہ اللہ عزو جل کے بارے میں بھی کہ جس نے فرمایا: ( اليوم أكملت لكم دينكم )ترجمہ: آج میں نے تمہائے لئے دین مکمل کردیا ہے ، اور اگر وہ کہیں کہ تحریر کروانامستحب تھا!! تو ہم کہتے ہیں کہ ہم سب اسی کے تو قائل ہیں۔
3- صحابہ کرام نبی صلی علیہ وسلم کا خیال کرتے ہوئے رُکے تھے، نہ کہ نافرمانی کرتے ہوئے۔ انتہی
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب