سوال: اسلامی تعلیمات کی رو سے قتل کی شرائط پائی جانے کے باوجود قتل کو اسلام نے کیوں روا رکھا ہے؟ کیا یہ روح صرف اللہ تعالی کی ملکیت نہیں ہے؟ میں قتل کے بارے میں قرآنی تعلیمات کو تسلیم نہیں کرتی، آپ مجھے صرف عقلی دلائل دیں ۔
ایک عیسائی طالبہ اسلام میں دی جانے والی سزائے قتل پر اعتراض کرتی ہے، اس کی بات پر ہمارا جواب
سوال: 156099
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
1- یہ اچھی بات ہے کہ غیر مسلم افراد کی جانب سے اسلامی احکامات اور حکمتوں کے بارے میں سوال مسلمان اہل علم کے سامنے رکھے جائیں، یہ غیر مسلموں کے لیے بھی بہتر ہوگا کہ وہ اپنے سوالات کا جواب عام مسلمان کی بجائے اہل علم سے لیں کیونکہ عام لوگ بسا اوقات جذبات میں آ جاتے ہیں اور لا علمی پر مبنی گفتگو کر جاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ہم تمام متلاشیان حق سے بھی امید رکھتے ہیں کہ جب بھی انہیں حق بات ملے تو اسے فوری طور پر قبول کر لیں، سوال برائے سوال یا سوال برائے تنقید ان کا ہدف نہیں ہونا چاہیے۔
2- ہم اپنا جواب سائلہ کی بات سے ہی شروع کرتے ہیں کہ سائلہ نے کہا:
" کیا یہ روح صرف اللہ تعالی کی ملکیت نہیں ہے؟"
تو ہم کہتے ہیں: بالکل یہ صرف اللہ تعالی کی ملکیت ہے، اس لیے اس کے مالک یعنی اللہ تعالی کے حکم سے ہی قتل کیا جائے گا ، لہذا اگر آپ شریعت الہی کی تاریخ میں کوئی میں ایسا قتل دیکھیں جو کہ اللہ تعالی کے حکم سے نہیں ہوا تو یہ ہم مسلمانوں کے لئے واقعی مشکل و پریشانی ہو گی؛ کیونکہ اس طرح آپ ہمارے خلاف دلیل کھڑی کر سکتی ہیں!
یہی وجہ ہے کہ اگر ہم کسی کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص قتل کا مستحق ہے، یا اس پر قتل کی سزا عملی طور پر قائم کی جائے اور یہ قتل شریعت میں موجود نہ ہو اور نہ ہی قرآن کریم میں اس کا حکم ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم نہ دیا ہو تو پھر یہ قتل ظلم و زیادتی ہو گا، اس وقت آپ مذکورہ موقف رکھنے والے پر اعتراض کر سکتی ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہو، بلکہ آپ سمیت سب لوگوں کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے۔
اور اگر قتل کرنے کی اجازت یا حکم صرف اسی کے بارے میں دیا جائے جو شریعت کی رو سے واقعی قتل کا مستحق ہو چاہے قرآن مجید کے مطابق یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانِ کے مطابق تو پھر آپ کیلیے اعتراض کرنے کا موقع نہیں ؛ کیونکہ اس صورت میں اعتراض کا جواب بہت آسان ہے کہ جس روح کے بارے میں آپ کہہ رہی ہیں کہ یہ رب العالمین کی ملکیت ہے اسی نے اسے پیدا کیا تو وہی اس صورت میں اسے قتل کرنے کا حکم دے رہا ہے۔
پہلے سوال نمبر: (20824) کے جواب میں یہ گزر چکا ہے کہ شریعت مطہرہ میں کن اسباب کی بنا پر قتل کی سزا دی گئی ہے، آپ اس جواب کا مطالعہ کریں۔
3- اگر ایسے نظریات اور افکار پر حکم لگائیں جنہیں ہم تسلیم نہیں کرتے تو ان پر حکم لگاتے ہوئے انصاف اور اعتدال کی راہ اختیار کرنے کیلیے دو چیزوں کا ہونا از بس ضروری ہے:
پہلی بات: دوسروں کے نظریہ کو بالکل اسی طرح کامل اور بغیر کسی کمی بیشی کے دیکھیں جیسے اس نظریے کے حامل افراد اپنے نظریے کو دیکھتے ہیں۔
دوسری بات: وہ تمام باتیں جو ہم اپنے یا اپنے کسی چاہنے والے کے بارے میں جائز سمجھتے ہیں دوسروں سے بھی قبول کریں۔
چنانچہ اگر ہم اسلامی احکامات کے بارے میں انصاف کرنا چاہیں تو ہمیں ان حالات کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا جن میں اسلام نے قتل کو جائز قرار دیا ہے یا قتل کا حکم دیا ہے، پھر اس حکم کے متعلق حقیقی تصور کو تکمیل دینے کیلیے یہ بھی ضروری ہے کہ اسلام نے بلا وجہ قتل کی روک تھام کیلیے کیا کیا اقدامات کیے ہیں اور معاشرے کو قتل کے سنگین نتائج سے کس طرح محفوظ کیا ہے۔
چنانچہ جن اسلامی احکامات کی رو سے لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ ملتا ہے ان میں سے چند یہ ہیں:
الف- خود کشی اور قتل کرنا اسلام میں حرام ہے۔
ب- شراب اور نشہ آور یا کوئی بھی چیز جو جان کیلیے مہلک ثابت ہو تو ایسی تمام چیزیں اسلام میں حرام ہیں۔
ج- اسقاط حمل کروانا حرام ہے۔
د- کسی شرعی حق کے بغیر قتل کرنا حرام ہے، اور پر امن لوگوں کو قتل کرنے کے بارے میں شدید وعید بتلائی گئی، مثال کے طور پر فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا )
ترجمہ: جو بھی کسی مؤمن کو عمداً قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں ہمیشہ رہے گا ، اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہوگی اور اللہ تعالی نے اس کیلیے عذابِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔ [النساء:93]
اس حکم میں معاہد اور ذمی غیر مسلم بھی شامل ہیں چنانچہ ان کے بارے میں ہمارے پیغمبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (جس شخص نے کسی معاہد کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا، حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے سونگھی جا سکتی ہے) بخاری: (2995)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں معاہد سے مراد وہ شخص ہے جس کا مسلمانوں کے ساتھ امن معاہدہ ہو چاہے جزیہ کی صورت میں یا مسلم حکمران کی جانب سے صلح یا کسی عام مسلمان کی طرف سے پناہ دینے کی صورت میں " انتہی
"فتح الباری" ( 12 / 259 )
ھ- کسی شبہ کی بنا پر حد نافذ نہ کرنا، چنانچہ کوئی بھی قتل کی حد جس میں شبہ پایا جائے تو چونکہ یہاں پر شبہ پایا جاتا ہے تو مدعی علیہ کو اس شبہ کی وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا۔
و- قتل کی سزا بڑے مجرموں یعنی: مرتد، شادی شدہ زانی، اور ناحق قاتل کیلیے رکھی گئی ہے ؛ کیونکہ دین، عزت آبرو اور جان کی اہمیت بہت زیادہ ہے، چنانچہ بہت سے دیگر سنگین جرائم بھی ہیں لیکن پھر بھی ان کی سزا قتل نہیں رکھی گئی، مثال کے طور پر سودی لین دین، چوری، تہمت، غیبت اور دیگر گناہوں پر قتل کی سزا نہیں ہے، چنانچہ اگر اسلام مغربی میڈیا کے مطابق ظالم ہوتا تو ہر گناہ و جرم پر قتل کی سزا ہی تجویز کرتا، لیکن اسلام ایسا دین بالکل بھی نہیں ہے، دین اسلام معتدل ترین اور ٹھوس احکامات پر مشتمل ہے۔
ز- قتل سے باز رکھنے کیلیے سخت ترین الفاظ میں قتل کی مذمت کی گئی ہے کہ بسا اوقات قاتل دین اسلام کے دائرے سے بھی خارج ہو سکتا ہے! ایسا اس وقت ہو گا جب قاتل قتل کو جائز سمجھے اور معصوم جانوں کا قتل بالکل بھی حرام نہ سمجھے، اسی بارے میں ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: (مؤمن اس وقت تک دینی وسعت میں رہتا ہے جب تک حرام خون نہ بہائے) بخاری: (6469)
ح- اسلام میں قتل کی حد نافذ کرنے کا حق افراد کے پاس نہیں ہے، بلکہ قانونی اور حکومتی معاملہ ہے۔
قرطبی رحمہ اللہ اس بارے میں کہتے ہیں کہ:
"اس بات میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے کہ قتل کی سزا نافذ کرنے کی ذمہ داری حاکم وقت پر ہے حدود وغیرہ کا نفاذ انہی کے ذمہ ہوتا ہے۔" انتہی
" تفسیر قرطبی " ( 2 / 245 )
چنانچہ اگر قتل کرنے کا حق عوام الناس کو دے دیا جائے تو بات پہلے قتل پر ہی ختم نہیں ہوگی بلکہ بڑھتی جائے گی اور معاملات دورِ جاہلیت کی طرح بگڑ جائیں گے، جہاں ایک مقتول کے بدلے میں دس قتل کیے جاتے تھے، ایک عورت کے بدلے میں ایک یا زیادہ مردوں کو قتل کیا جاتا تھا، حالانکہ یہ اضافی قتل سراسر ظلم ہے۔
لیکن اسلام میں سب سے پہلے ملزم پر قتل کا جرم ثابت ہونا ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی لازمی ہے کہ اقدام قتل کسی شبہ کی وجہ سے نہ ہو تو تب جا کر قاتل کو قتل کیا جائے گا، اسلامی شریعت میں معاملہ یہی پر موقوف نہیں ہو جاتا بلکہ مقتول کے ورثاء کو کسی معاوضہ کے بغیر معاف کرنے پر بھی ترغیب دلائی گئی ہے یا قتل کے بدلے دیت پر راضی ہو جائیں، چنانچہ شریعت نے مقتول کے ورثا کو ترغیب دلائی کہ قاتل کو معاف کر دیں تو انہیں اس پر بہت بڑا ثواب ملے گا، مزید بر آں اگر مقتول کے ورثاء کو دیت کی رقم سے زیادہ رقم دے کر معاف کرنے پر راضی کرنا ممکن ہو تو اس کی بھی اجازت دی ہے صرف اس لیے کہ قتل کے بدلے قتل نہ ہو۔
لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ معافی کی ترغیب اور مقتول کے ورثاء کے ہاں سفارش وغیرہ اُس وقت بالکل نہیں ہو گی جب قاتل عادی مجرم ہو اور اسے اپنے کیے پر کسی بھی قسم کی ندامت اور پشیمانی نہ ہو، ایسے شخص کے بارے میں سفارش کرنا حرام متصور ہوگا، کیونکہ ایسے شخص کے قتل سے دوسروں کو سکون ملے گا، انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ )
ترجمہ: اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے اے عقل والو، تا کہ تم متقی بن جاؤ[البقرة: 179]
یہ بلیغ ترین الفاظ قاتل سے قصاص لینے کی حکمت کو انتہائی مختصر انداز میں بیان کر رہے ہیں، اور یہ الفاظ دورِ جاہلیت میں قصاص کے بارے میں کہے جانے والے کسی بھی جملے سے بلیغ ، فصیح اور زیادہ وزنی معنی رکھتے ہیں۔
اس بارے میں شیخ شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قرآن کریم کی ٹھوس اور محکم رہنمائی میں قصاص بھی شامل ہے؛ کیونکہ انسان جس وقت غصے میں آ کر کسی دوسرے شخص کو قتل کرنے لگے تو وہ یہ بات یاد کر کرے اقدام قتل سے باز رہتا ہے کہ اس کے بدلے میں اسے بھی قتل کر دیا جائے گا، اس طرح اس شخص کو بھی زندگی ملتی ہے جسے قتل کا ارادہ کیا گیا اور اقدامِ قتل کرنے والا بھی زندگی پاتا ہے کہ اسے قصاصاً قتل نہیں کیا جاتا، چنانچہ ہمارے ذکر کردہ مفہوم کے مطابق کسی قاتل کو قتل کرنے سے اتنے زیادہ لوگوں کی زندگیاں بچتی ہیں جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ )
ترجمہ: اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے اے عقل والو، تا کہ تم متقی بن جاؤ[البقرة: 179]
یقیناً جانوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلیے یہ انتہائی معتدل اور ٹھوس طریقہ ہے، یہی وجہ ہے کہ کتاب اللہ کو نافذ کرنے والے ممالک میں قتل کے واقعات بہت کم رونما ہوتے ہیں؛ کیونکہ قصاص بذات خود اقدام قتل سے باز رکھتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے مذکورہ آیت میں واضح فرمایا ہے۔
دشمنان اسلام کا یہ کہنا کہ قصاص مبنی بر حکمت نہیں ہے کیونکہ اس طرح سے معاشرے کے افراد کی تعداد کم ہوتی ہے کہ ایک تو قتل ہو ہی گیا تھا اب قاتل کو بھی قتل کر دیا جائے! اس لیے قاتل کو قتل کرنے کی بجائے قید کر دیا جائے اور پھر عین ممکن ہے کہ قید کے دوران اس کے اولاد ہو جائے تو معاشرے میں افراد کی تعداد میں اضافہ ہوگا[!!] یہ سب حکمت سے خالی فضول باتیں ہیں؛ کیونکہ محض قید لوگوں کو اقدام قتل سے باز نہیں رکھ سکتی، اور اگر سزا کڑی نہ ہو تو بیوقوف لوگ قتل کیلیے اقدامات کرتے رہیں گے، اور اس طرح سے قتل کی شرح بڑھے گی اور افراد کم ہوتے جائیں گے" انتہی
" أضواء البيان " ( 3 / 31 ، 32 )
4- ہم سائلہ سے یہ بھی کہیں گے کہ: کیا آپ کو معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جنگوں میں قتل ہونے والے مسلمان اور کفار سمیت کتنے قتل ہوئے؟ دو طرفہ مقتولین کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ نہیں ہے! لیکن دوسری جانب قتل کی سزا قتل نہ دینے والے مغربی قوانین کے سائے تلے ہزاروں افراد ایک ہی سال میں قتل ہو جاتے ہیں!
5- کسی عیسائی خاتون کی جانب سے ہمیں تو یہ اعتراض ہی عجیب لگتا ہے ! کیونکہ ایک عیسائی لڑکی کتاب مقدس پر ایمان لازمی رکھتی ہے اور کتاب مقدس میں ہی سزا کے طور پر قتل کرنا موجود ہے، بلکہ کتاب مقدس میں بچوں، بوڑھوں، اور مردوں سمیت پوری کی پوری اقوام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا حکم موجود ہے۔
چنانچہ کتاب استثنا کے 20 ویں باب میں 10 نمبر اور اس کے بعد میں ذکر ہے کہ:
"جب تُو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اُس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اُسے صلح کا پیغام دینا ۔ اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں ۔
اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تو اُس کا محاصرہ کرنا ۔ اور جب خداوند اُسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا ۔ لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپایوں اور اُس شہر کے سب مال اور لُوٹ کو اپنے لیے رکھ لینا اور تُو اپنے دشمنوں کی اُس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہے کھانا ۔ اُن سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور وہ اِن قوموں کے شہر نہیں ہیں ۔
پر اِن قوموں کے شہروں میں جن کو خداوند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا رکھنا ۔ بلکہ تُو حِتّی اور اموری اور کعنانی اور فرزی اور حوی اور یبوسی قوموں کو جیسا خداوند تیرے خدا نے تجھ کو حکم دیا ہے بالکل نیست کر دینا ۔ تاکہ وہ تُم کو اپنے سے مکروہ کام کرنے نہ سکھائیں جو اُنہوں نے اپنے دیوتاؤں کے لیے کیے ہیں اور یوں تُم خداوند اپنے خدا کے خلاف گناہ کرنے لگو "
کتاب مقدس کی اس عبارت سے بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالی نے چھ خاندانوں کے مردوں، عورتوں اور بچوں سب کو قتل کرنے کا حکم دیا، وہ چھ قبائل یہ ہیں:
1)حِتّی 2) اموری 3)کعنانی 4)فرزی 5) حوی 6) یبوسی
اور ان کے علاوہ جتنے بھی لوگ ہیں انہیں مرحلہ وار پیشکش کرنی ہے:
1) صلح کی پیشکش کرنی ہے ، چنانچہ اگر صلح پر آمادہ ہو جائیں اور تمہاری اطاعت قبول کریں تمہیں جزیہ دینے لگیں تو اچھی بات ہے۔
2) اگر صلح کیلیے راضی نہ ہوں تو جنگ کرو۔
3) جنگ کی صورت میں اگر تمہیں فتح ملے تو تمام مردوں کو تلوار سے قتل کر دیا جائے، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے، ان کے جانوروں اور املاک پر قبضہ کر کے جنگجوؤں میں تقسیم کر دیا جائے۔
مذکورہ چھ قبائل کے علاوہ دور والے جتنے بھی قبائل ہیں سب کے ساتھ یہی کچھ کیا جائے۔
اسی طرح کتاب خروج کے 23 ویں باب میں 22 نمبر کے بعد ہے کہ:
" اِس لیے کہ میرا فرشتہ تیرے آگے آگے چلے گا اور تجھے اموریوں اور حِتّیوں اور فرزّیوں اور کنعانیوں اور حوّیوں اور یبوسیوں میں پہنچا دیگا اور میں انکو ہلاک کر ڈالوں گا ۔ تو اُن کے معبودوں کو سجدہ نہ کرنا نہ اُن کی عبادت کرنا نہ انکے سے کام کرنا بلکہ اُن کو بالکل اُلٹ دینا اور اُنکے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنا ۔ "
اسی طرح دیکھیں: (خروج: 34/11) کے بعد اسی طرح (استثنا: 7/1) اور اس کے بعد کا حصہ ملاحظہ کریں۔
کتاب مقدس نے جن لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ان کی تعداد کا صحیح تعین کرنے کیلیے اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ مذکورہ ساتوں قبائل بنی اسرائیل کے سب سے زیادہ آبادی والے قبائل تھے، اور ان کی تعداد شواہد کے مطابق کئی ملین بنتی ہے!!
دیکھیں: (کتاب گنتی: 1/20) اور اس کے بعد کا حصہ
اسی طرح پوپ ڈاکٹر کیتھ نے ایک کتاب لکھی "کشف الآثار فی قصص أنبیاء بنی اسرائیل" اس میں ہے کہ:
"قدیم کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیہ کے علاقے سے خروج سے پہلے وہاں کے مکینوں کی تعداد آٹھ کروڑ تھی"
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن کو صفحہ ہستی سے مٹانے اور قتل کرنے کا حکم کتاب مقدس نے دیا تھا ان کی تعداد : آٹھ کروڑ تھی۔
اگر ہم انجیل مقدس میں مزید ایسے احکامات کی تلاش کریں جہاں پر قتل اور صفحہ ہستی سے مٹانے کا حکم دیا گیا ہے تو ہمیں درج ذیل نصوص بھی ملتی ہیں:
چنانچہ کتاب خروج کے باب: 22 میں 20 نمبر پر ہے کہ:
" جو کوئی واحد خُداوند کو چھوڑ کر کسی اور معبود کے آگے قربانی چڑھائے وہ بالکل نا بود کر دیا جائے۔ "
اسی طرح کتاب خروج کے باب: 32 میں 25 نمبر پر ہے کہ:
بچھڑے کے بچاریوں کے بارے میں کہا:
" جب موسی نے دیکھا کہ لوگ بے قابو ہو گئے ہیں کیونکہ ہارون نے ان کو بے لگام چھوڑ کر ان کو ان کے دشمنوں کے درمیان ذلیل کر دیا ۔ تو موسی نے لشکر گاہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر کہا : "جو خُداوند کی طرف ہے وہ میرے پاس آ جائے " تب سب بنی لاوی اس کے پاس جمع ہو گئے ۔ اور اس نے ان سے کہا کہ اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ تم اپنی اپنی ران سے تلوار لٹکا کر پھاٹک پھاٹک گھوم گھوم کر سارے لشکر گاہ میں اپنے اپنے بھائیوں اور اپنے اپنے ساتھیوں اوراپنے اپنے پڑوسیوں کو قتل کرتے پھرو ۔ اور بنی لاوی نے موسی کے کہنے کے موافق عمل کیا چنانچہ اس دن لوگوں میں سے قریباً تین ہزار مرد کھیت آئے "[یعنی قتل ہوئے!!]
اسی طرح کتاب گنتی کے 25 ویں باب کے شروع میں ہے :
" اور اسرائیلی شطیم میں رہتے تھے اور لوگوں نے موآبی عورتو ں کے ساتھ حرام کاری شروع کر دی ۔ کیونکہ وہ عورتیں ان لوگوں کو اپنے دیوتاؤں کی قربانیوں میں آنے کی دعوت دیتی تھیں اور یہ لوگ کھاتے اور ان کے دیوتاؤں کو سجدہ کرتے تھے۔ یوں اسرائیلی بعل فغور کو پوجنے لگے تب خداوند کا قہر بنی اسرائیل پر بھڑکا ۔ اور خداوند نے موسی سے کہا کہ : "قوم کے سب سرداروں کو پکڑ کر خداوند کے حضور دھوپ میں ٹانگ دے تاکہ خداوند کا شدید قہر اسرائیل پر سے ٹل جائے۔ سو موسی نے بنی اسرائیل کے حاکموں سے کہا کہ تمہارے جو جو آدمی بعل فغور کی پوجا کرنےلگے ہیں ان کو قتل کر ڈالو ۔ اور جب بنی اسرائیل کی جماعت خیمہ اجتماع کے دروازے پر رو رہی تھی تو ایک اسرائیلی شخص موسی اور تمام لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ایک مدیانی عورت کو اپنے ساتھ اپنے بھائیوں کے پاس لے آیا ۔ جب فینحاس بن الیعزر بن ہارون کاہن نے یہ دیکھا تو اس نے جماعت میں سے اٹھ کر ہاتھ میں ایک برچھی لی ۔ اور اس مرد کے پیچھے جا کر خیمہ کے اندر گھسا اور اس اسرائیلی مرد اور عورت کا پیٹ چھید دیا تب بنی اسرائیل میں سے وبا جاتی رہی ۔ اور جتنے اس وبا سے مرے ان کا شمار چوبیس ہزار تھا۔ "
اسی طرح کتاب گنتی کے 31 ویں باب کے شروع میں ہے :[جس کا خلاصہ یہ ہے کہ]
"موسی نے بارہ افراد کو فینحاس بن الیعزر کو مدیانیوں کے ساتھ جنگ کے لیے بھیجا ، تو انہوں نے ان سے جنگ کی اور ان پر غالب آ گئے، چنانچہ انہوں نے تمام مردوں کو قتل کر دیا اور ان کے پانچوں حکمرانوں سمیت بلعام کو بھی قتل کر دیا، ان کی عورتوں اور مویشیوں کو قبضے میں لے لیا ، نیز بستیوں ، چھاؤنیوں اور رہائشی علاقوں کو آگ لگا کر بھسم کر دیا، جب وہ واپس آئے تو ان پر موسی غضبناک ہوئے اور کہا: تم نے عورتوں کو قتل کیوں نہیں کیا؟ تو پھر انہوں نے ہر مذکر بچے اور شادی شدہ عورت کو قتل کرنے کا حکم دے دیا اور کنواری لڑکیوں کو زندہ رکھنے کا حکم دیا، تو انہوں نے حکم کی تعمیل کی تو اس وقت مال غنیمت کی تعداد کچھ یوں تھی: بکریاں: (675000) ، گائے: (72000) گدھے: (61000) کنواری لڑکیاں:(32000)"
یہاں ہم یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر کنواری لڑکیوں کی تعداد 32 ہزار تھی تو چھوٹے بڑے، بوڑھے اور جوان مقتول مردوں کی تعداد کتنی ہوگی؟ اور اسی طرح شادی شدہ عورتوں کی تعداد کتنی ہوگی؟
اگر ہم یشوع کی جانب منتقل ہوں تو ہمیں کئی ملین لوگ قتل ہوتے نظر آتے ہیں اور یہ موسی کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے جیسے کہ یہ ان کی کتاب میں ذکر ہے:
چنانچہ کتاب قضاۃ میں باب 15 میں 15 نمبر کے بعد ہے کہ :
سمسون نے ایک ہزار آدمیوں کو گدھے کے جبڑے کی ہڈی سے قتل کیا:
"اور اسے ایک گدھے کے جبڑے کی نئی ہڈی مل گئی سو اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھا لیا اور اس سے اس نے ایک ہزار آدمیوں کو مار ڈالا۔ پھر سمسون نے کہا ”گدھے کے جبڑے کی ہڈی سے ڈھیر کے ڈھیر لگ گئے۔ گدھے کے جبڑے کی ہڈی سے میں نے ایک ہزار آدمیوں کو مارا"
چنانچہ کتاب سموئیل اول میں باب 27 میں 8 نمبر کے بعد ہے کہ :
" اور داؤد اور اس کے لوگوں نے جا کر جُسوریوں ، جزریوں اور عمالقہ پر حملہ کیا کیونکہ وہ شؔور کی راہ سے مصر کی حد تک اس سر زمین کے قدیم باشندے تھے ۔ اور داؔؤد نے اس سر زمین کو تباہ کر ڈالا اور عورت یا مرد کسی کو جیتا نہ چھوڑا اور ان کی بھیڑ ، بکریاں ، بیل ، گدھے ، اُونٹ اور کپڑے لیکر لَوٹا اور اِکؔیس کے پاس گیا"
[اسی طرح ایک اور جگہ لکھا ہے کہ: ]
" اور اُس نے اُن لوگوں کو جو اُس میں تھے باہر نکال کر ان کو آروں اور لوہے کے ہینگوں اور لوہے کے کلہاڑوں کے نیچے کر دیا اور ان کو اینٹوں کے پزادے میں سے چلوایا اور اُس نے بنی عمون کے سب شہروں سے ایسا ہی کا۔ "
یہ تو ہیں پرانے عہد کی کتابیں۔۔۔!
تو نئے عہد کی کتابیں کیا کہتی ہیں۔۔۔؟!
اور عہد جدید کے کاہن کس بات پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔؟!
ان تمام باتوں کا جواب بولس دیتے ہوئے کہتا ہے کہ:
" اب اور کیا کہوں؟ اتنی فرصت کہاں کہ جدعون اور برق اور سمسُون اور اِفتاہ اور داؤد اور سموئیل اور نبیوں کے احوال بیان کروں؟۔ انہوں نے ایمان ہی کے سبب سے سلطنتوں کو مغلوب کیا۔ راست بازی کے کام کئے۔ وعدہ کی ہوئی چیزوں کو حاصل کیا۔ شیروں کے منہ بند کئے۔ آگ کی تیزی کو بجھایا۔ تلوار کی دھار سے بچ نکلے۔ کمزوری میں زور آور ہوئے۔ لڑائی میں بہادر بنے۔ غیروں کی فوجوں کو بھگا دیا۔ "
اس اقتباس میں بولس نے مذکورہ جن لوگوں کے نام لیکر ان کے کارنامے ذکر کیے ہیں ان کے ان اعمال کو ایمان، تقوی، اصلاح اور خیر شمار کرتا ہے۔۔۔!
قدیم کاہن اور جنگوں کی روداد بیان کرنے والے قتل و غارت اور جلا وطنی کے واقعات بڑے خوش ہو کر بیان کرتے ہیں اور اس پر خوب حمد و تسبیح کرتے ہیں۔۔۔ بلکہ انہیں کرامات معجزات اور نشانیاں قرار دیا جاتا ہے۔
نیز کلیسا میں پڑھے جانے والے ترانوں میں مسیح کی یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ:
" یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔ " (متی: 10/34)
کتاب مقدس کی جو نصوص ہم نے تمہارے سامنے رکھی ہیں انہیں پڑھنے کے بعد ہمیں امید ہے کہ اگر آپ کو فرصت ملے اور آپ سچائی کی تلاش میں ہیں تو کتاب: "مناظرة بين الإسلام والنصرانية" صفحہ: (342) سے آگے پڑھیں اسی طرح ایک کتاب: " إظهار الحق " از شیخ رحمت الله ہندی (4/1256) کے بعد والا حصہ پڑھیں۔
یہاں پر کتاب مقدس کے ماننے والوں سے کہا جا سکتا ہے کہ:
"تو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟
42 اور جب تو اپنے آنکھ کے شہتیر کو نہیں دیکھتا تو اپنے بھائی سے کیونکر کہہ سکتا ہے کہ بھائی لا اس تنکے کو جو تیری آنکھ میں ہے نکال دوں؟
اے ریاکار! پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتیر نکال۔ پھر اس تنکے کو جو تیرے بھائی کی آنکھ میں ہے اچھی طرح دیکھ کر نکال سکے گا۔ "
(لوقا: 6/ 41-42)
مذکورہ بالا تفصیلات کے بعد:
اگر آپ کسی بھی آسمانی شریعت پر ایمان رکھتی ہیں تو ہم نے آپ ہی کی کتاب مقدس میں سے گفتگو نقل کی ہے، اور ان سے واضح ہوتا ہے کہ کتاب مقدس میں اسلامی شریعت سے کہیں زیادہ قتل کے احکامات موجود ہیں۔
اور اگر آپ صرف عقلی دلائل کو مانتی ہیں دین پر ایمان نہیں رکھتیں تو ہم نے قصاص اور مرتد کی سزا میں کار فرما پورے معاشرے کیلیے حکمت و رحمت عیاں کر دی ہے۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو سچائی دکھا دے اور آپ کو سچائی پر چلنے کی توفیق دے۔
ہمیں آپ کی طرف سے سوالات موصول ہونے پر خوشی ہوگی۔
اللہ تعالی آپ کو نورِ بصیرت سے نوازے، آپ کی شرح صدر فرمائے، آپ کے لیے راہِ ہدایت آسان بنا دے اور آپ کی مدد فرمائے۔ آمین
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات