سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ : برکت کھانے کے درمیان میں نازل ہوتی ہے، اس لئے کناروں سے کھاؤ، درمیان میں سے مت کھاؤ۔۔ اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ برکت کھانے کے درمیان میں نازل ہو، اور ہم درمیان میں سے نہ کھائیں؟
اگر برکت کھانے کے درمیان میں نازل ہوتی ہے تو ہم کھانے کے درمیان میں سے کیوں نہیں کھاتے؟
سوال: 159074
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ابو داود :(3772) ، ترمذی: (1805) ابن ماجہ: (3277) اور احمد : (3204) نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو کھانے کے درمیان سے مت کھائے، بلکہ اطراف سے کھائے، کیونکہ برکت درمیان میں نازل ہوتی ہے) حدیث کے یہ الفاظ ابوداود کے ہیں۔
جبکہ ابن ماجہ کے الفاظ ہیں: (جب کھانا لگا دیا جائے، تو کناروں سے کھاؤ، درمیانی حصے کو چھوڑ دو، کیونکہ برکت درمیان میں ہی نازل ہوتی ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے “صحیح ابو داود” وغیرہ میں صحیح کہا ہے۔
اسی طرح ابن ماجہ (3276)نے واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثرید [گوشت کے شوربے اور روٹی سے بنائی گئی چوری] کے درمیان میں ہاتھ رکھا، اور فرمایا: (بسم اللہ پڑھ کر اس کے ارد گرد سے کھاؤ، اور درمیانی حصہ کو چھوڑ دو، کیونکہ برکت درمیان میں نازل ہوتی ہے) اسے البانی نے “صحیح ابن ماجہ” میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح معجم کبیر طبرانی : (208) میں واثلہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (بسم اللہ پڑھ کر لو، اور اس کے اردگر سے کھاؤ، درمیانی حصہ کے اوپر سے مت اٹھاؤ کیونکہ برکت اس کے اوپر والے حصے پر ہی نازل ہوتی ہے)
اسی حدیث کو ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی “تاریخ [دمشق]” (35/347) میں نقل کیا ہے، وہاں اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (بسم اللہ پڑھ کر اس کے ارد گرد سے کھاؤ، اور کوہان باقی رہنے دو؛ کیونکہ برکت اسی پر نازل ہوتی ہے، اور پھر اطراف میں پھیل جاتی ہے)
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ برکت اللہ کی جانب سے کھانے کے اوپر والے حصے پر نازل ہو کر اطراف میں بکھر جاتی ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو برتن کے درمیان سے کھانے سے منع کر دیا، اور انہیں یہ رہنمائی فرمائی کہ برتن کے کناروں سے کھائیں، جہاں برکت درمیان سے سرایت کر کے کناروں تک پہنچ جاتی ہے، اس طرح ہر کوئی اس برکت میں سے اپنا حصہ لے لے گا۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے درمیانی اوپر والے حصہ سے کھانے سے منع فرمایا؛ کیونکہ اگر درمیان سے کھانا شروع کر دیا تو کھانے سے برکت چلی جائے گی، بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی دوسرے کو برکت حاصل ہی نہ ہو؛ کیونکہ اس کے درمیانی اوپر والے حصہ میں برکت ہوتی ہے، اور جیسے ہی درمیانی اوپر والا حصہ ختم ہو گا تو برکت بھی اسی کے ساتھ ختم ہو جائے گی، اور درمیان سے اطراف کی طرف پھیلنے کیلئے برکت باقی نہیں رہے گی، اور یہ بات بے ادبی، بد سلوکی، لالچی پن اور بے صبری تصور ہوتی ہے، جس سے لوگ متنفر ہونگے، اور ایسے شخص کے پاس بیٹھ کر کھانا کھانے سے نفرت کرینگے، اور اس طرح برکت یا تو سرے سے ختم ہو جائے گی، یا پھر برکت میں کمی آجائے گی۔
صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حدیث میں برتن کے درمیان سے کھانے پر ممانعت ہے؛ اور اس ممانعت کی وجہ یہ بتلائی کہ برکت درمیان میں نازل ہوتی ہے، گویا کہ اگر درمیان سے کھایا گیا تو کھانے پر برکت نازل ہی نہیں ہوگی” انتہی
“سبل السلام” (3 /160)
حافظ عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“درمیان سے کھانے کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ درمیان میں پڑا ہو اکھانا بہترین، اور اچھا ہوتا ہے، اور اگر کوئی اپنے آپ کو دیگر رفقاء پر ترجیح دیتے ہوئے اچھے کھانے کو اپنے لیے اٹھا لے، تو یہ بے ادبی اور بدسلوکی شمار ہوگا۔
اور یہاں پر برکت سے مراد اللہ کی مدد اور نصرت ہے” انتہی
“فيض القدير” (5 /58)
کھانا کھانے کے مزید آداب کے بارے میں جاننے کیلئے سوال نمبر: (13348) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات