سنت نبويہ ميں كھانا كھاتے وقت بيٹھنے كى كيا كيفيت اور طريقہ ہے ؟
ميں نےاس كے متعلق تين طريقے سنے ہيں، ليكن اس ميں سے كسى كى بھى دليل نہيں برائے مہربانى اس كى وضاحت فرمائيں كيا كونسا طريقہ سنت كے مطابق ہے ؟
كھانا كھاتے وقت بيٹھنے كا طريقہ
سوال: 171848
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” ميں سہارا لگا كر نہيں كھاتا “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4979 ).
سہارا لگا كر كھانے معنى يہ ہے كہ: الاتكاء ہر اس بيٹھنے كے طريقہ كو كہا جائيگا جس ميں كھانا كھانے والا شخص مطمئن اور متمكن ہو كر كھائے، كيونكہ يہ چيز زيادہ كھانے كا باعث ہے جو كہ شرعا قابل مذمت ہے.
اسى ليے امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس كا معنى يہ ہے كہ: ميں اس طرح نہيں كھاتا جس طرح زيادہ كھانا كھانے والا صحيح اور متمكن ہو كر بيٹھتا ہے بلكہ ميں غير مطئمن ہو كر بيٹھتا ہوں تا كہ جلدى اٹھا جا سكے، اور تھوڑا كھاتا ہوں ” انتہى
ماخوذ از: شرح مسلم للنووى.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” الاتكاء يعنى سہارا لگا كر كى كيفيت ميں اختلاف ہے كہ يہ كس طرح كا طريقہ ہے:
ايك قول يہ ہے كہ: آدمى كھانے كے ليے مطئمن ہو كر بيٹھے چاہے وہ كسى بھى شكل ميں بيٹھا ہو.
اور ايك قول يہ ہے كہ: ايك جانب مائل ہو كر بيٹھے.
اور ايك قول يہ ہے كہ: باياں ہاتھ زمين پر ركھ كر اس پر ٹيك لگا كر بيٹھے.
خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عام لوگ يہ سمجھتے ہيں كہ متكئ وہ شخص ہے جو ايك طرف مائل ہو كر كھائے، حالانكہ ايسا نہيں ہے بلكہ اس سے مراد تو يہ ہے كہ وہ اپنے نيچے والى چيز پر اعتماد اور سہار لے كر بيٹھے.
اور حديث كا معنى يہ ہے كہ: ميں كھانا كھاتے وقت زيادہ كھانے والے كے طرح اپنے نيچے والى چيز پر سہارا لگا كر نہيں بيٹھتا، كيونكہ ميں تو تھوڑا سا كھاتا ہوں اس ليے غير مطمئن ہو كر بيٹھتا ہوں تا كہ جلدى اٹھا جا سكے ” انتہى
ماخوذ از: فتح البارى ( 9 / 541 ) مزيد آپ امام خطابى كى كتاب معالم السنن ( 4 / 242 ) اور ابن قيم رحمہ اللہ كى زاد المعاد ( 4 / 202 ) بھى ديكھيں.
ملا على القارى مرقاۃ ميں لكھتے ہيں:
الشفاء ميں محققين سے منقول ہے كہ انہوں نے اس كى شرح اس طرح كى ہے كہ كھانے كے ليے مطئمن ہو كر بيٹھنا اور چہار زانو ہو كر اپنے نيچے بچھى ہوئى چيز پر ٹيك اعتماد كرتے ہوئے بيٹھنا، كيونكہ اس كا معنى يہ ہے كہ زيادہ كھايا جائے اور يہ چيز تكبر كى متقاضى ہے ” انتہى
ديكھيں: عون المعبود شرح سنن ابى داود ( 10 / 244 ).
دوم:
رہى كھانے كے ليے بيٹھنے كى كيفيت تو اس سلسلہ ميں امام مسلم رحمہ اللہ نے انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.
انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو دونوں پاؤں كى ايڑيوں پر بيٹھ كر كھجوريں كھاتے ہوئے ديكھا ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 3807 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
الاقعاء يہ ہے كہ آدمى دونوں پاؤں كھڑے كر كے ان كى ايڑيوں پر بيٹھے تو يہ اقعاء كہلاتا ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےاس كيفيت ميں بيٹھ كر كھايا تا كہ انہيں بيٹھنے ميں استقرار نہ ہو اور وہ زيادہ نہ كھائيں.
كيونكہ جب انسان دونوں پاؤں كو كھڑا كر كے بيٹھے تو وہ اطمنان سے نہيں بيٹھےگا اور زيادہ نہيں كھائےگا، اور جب كوئى غير مطئمن بيٹھےگا تو وہ زيادہ نہيں كھائےگا، غالب يہى ہے، ليكن جب وہ مطئمن ہو كر بيٹھےگا تو غالبا زيادہ كھائےگا …. ” انتہى
ماخوذ از: شرح رياض الصالحين.
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” كھانے والے كے ليے بيٹھنے كا مستحب طريقہ يہ ہے كہ وہ دو زانو ہو كر اپنے پاؤں پر بيٹھے يا پھر داياں پاؤں كھڑا كر كے بائيں پر بيٹھے… ” انتہى
ماخوذ از: فتح البارى.
ذيل ميں ہم كھانے كے ليے بيٹھنے كے تين طريقے بيان كرتے ہيں:
پہلا:
اقعاء يعنى دونوں پاؤں كھڑے كر كے ايڑيوں پر بيٹھنا.
دوسرا:
دو زانو ہو كر دونوں پاؤں پر بيٹھنا.
تيسرا:
داياں پاؤں كھڑا كر كے بائيں پاؤں پر بيٹھنا.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” …. ليكن بہتر يہى ہے كہ آپ اس طرح نہ بيٹھے جس طرح كوئى انسان مطمئن ہو كر بااعتماد بيٹھتا ہے، تا كہ زيادہ كھانے كا سبب نہ بن سكے، كيونكہ زيادہ نہيں كھانا چاہيے ” انتہى
ماخوذ از: شرح رياض الصالحين.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب