آجکل لفظ “ادیانِ ابراہیمی” زبان زد عام ہے تو کیا اس طرح کہنا جائز ہے؟
ایک اصطلاح “ادیانِ ابراہیمی “کے بارے میں
سوال: 192220
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اصطلاحات کی دنیا میں محاذ آرائی دانشوروں اور مفکرین کے ہاں انتہائی خطرناک چیلنجز میں سے ایک ہے، بلکہ بہت سے ائمہ اور اہل علم نے اسے ایک ایسی دلدل قرار دیا ہے جہاں دوسروں کی آپ بات ہی نہ کریں، اپنے فن کے ماہر حضرات بھی پھنس جاتے ہیں ، اس لئے کہ ان اصطلاحات کی چمک دمک کے پیچھے سیاہ چہرہ پوشیدہ ہوتا ہے، جسکے کثرتِ استعمال کی وجہ سے قلمدان محاذ آرائی شروع ہوجاتی ہے اور کچھ ایسی تحریکیں وجود میں آجاتی ہیں جن کا مقصد تعمیری نہیں ہوتا، حتی کہ ان سیاہ چہروں کا مقابلہ کرنے والے لوگوں کو معاشرے میں اجنبی سا سمجھا جانے لگتا ہے ، اور آخر کار مخالفین دسیسہ کاریوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
بعینہ حال “ادیانِ ابراہیمی” یا “اتحاد بین المذاہب” یا “عالمی مذہب” وغیرہ گذشتہ صدی میں ظہور پذیر ہونے والی اصطلاحات کا ہے، ظاہری طور پر بڑی اچھی اصطلاحات ہیں معانی و مفاہیم بہت خوب رو ہیں، مثلاً: جیو اور جینے دو، امن و امان، فرمانِ الہی کے مطابق اہل کتاب سے اچھے تعلقات وغیرہ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان مفاہیم کو ایک مسلمان اپنی زندگی میں قرآنی تعلیمات کے مطابق “ذمیوں کے حقوق”کے تحت ڈھال سکتا ہے، لیکن ان شریعت سے موافقت رکھنے والے مفاہیم کی آڑ لیکر بہت سے دسیسہ کار باطل اور جھوٹ کیلئے راستہ ہموار کرتے ہیں، اور حقیقت میں ان اصطلاحات کو”اختلاط بین الادیان” چھپانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، جسکا مقصد صرف بات چیت ہی نہیں، بلکہ اس سے اسلامی عقیدہ کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے فرق کو مٹانا ہے ،تا کہ بنیادی ہدف معرفتِ الہی ہو، چاہے اس ہدف کو پانے کیلئے یہودیت کا راستہ اختیار کیا جائے، یا عیسائیت کا یا اسلام کا، چنانچہ اس قسم کے دعوے کرنے والوں کے نزدیک ان ادیان میں کوئی فرق نہیں، بلکہ یہ تمام متعدد اور یکساں راستے اللہ کی راہ ہی بتلاتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:
( وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) آل عمران/85
ترجمہ: جو اسلام کیلئے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے ، تو کبھی بھی اس سے قبول نہ کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔
اصل میں یہ بہت ہی پرانی دعوت ہے جو چند یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے شروع کی گئی تھی، جسکا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنے سچے عقیدے کے حق سے دستبردار ہو جائیں، کہ کم از کم اس بات پر راضی ہوجائیں کہ ان کے دین بھی سچے ہیں اور آخرت میں نجات کیلئے کافی ہیں، لیکن اس دعوت کی مخالفت میں قرآن مجید نے واضح اور صراحت سے کہہ دیا:
( وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) البقرة/135
ترجمہ:اور (اہل کتا ب نے کہا)یہودی یا عیسائی ہو جاؤ، ہدایت پا جاؤ گے، آپ کہہ دیجئے: دینِ حنیف ابراہیمی ملت(ہی سچا دین ہے) اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔
اہل کتاب نے ملتِ ابراہیم کی طرف اپنی نسبت کرنا چاہی تو قرآن نے انکا پول کھول دیا؛ اس لئے کہ ملتِ ابراہیم: توحید، اور تمام انبیاء پر ایمان لانے کا نام ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ . قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ . فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ . صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ . قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ . أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَى قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ . تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) البقرة/135-141
ترجمہ: یہودی کہتے ہیں کہ ”یہودی ہو جاؤ تو ہدایت پاؤ گے” اور عیسائی کہتے ہیں کہ ”عیسائی بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔” آپ ان سے کہہ دیجئے : (بات یوں نہیں) بلکہ جو شخص ملتِ ابراہیم پر ہوگا وہ ہدایت پائے گا اور ابراہیم موحد تھے شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے (مسلمانو)! تم اہل کتاب سے یوں کہو کہ : ”ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہم پر اتارا گیا ہے اور اس پر بھی جو حضرت ابراہیم ،اسماعیل ،اسحاق ،یعقوب ،اور ان کی اولاد پر اتارا گیا تھا۔ اور اس وحی و ہدایت پر بھی جو موسیٰ ،عیسیٰ، اور دوسرے انبیاء کو ان کے پروردگار کی طرف سے دی گئی تھی۔ ہم ان انبیاء میں سے کسی میں تفریق نہیں کرتے اور ہم تو اسی (ایک اللہ ) کے فرمانبردار ہیں۔”[136]سواگر یہ اہل کتاب ایسے ہی ایمان لائیں جیسے تم لائے ہو تو وہ بھی ہدایت پا لیں گے اور اگر اس سے منہ پھیریں تو وہ ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں۔ لہذا اللہ ان کے مقابلے میں آپ کو کافی ہے اور وہ ہر ایک کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے[137](نیز ان سے کہہ دو کہ : ہم نے) اللہ کا رنگ (قبول کیا) اور اللہ کے رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہو سکتا ہے۔ اور ہم تو اسی کی عبادت کرتے ہیں[138]آپ ان سے کہیے : ”کیا تم لوگ ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو جبکہ وہی ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی؟ ”ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ اور ہم خالصتہ اسی کی بندگی کرتے ہیں۔[139](اے اہل کتاب) کیا تم لوگ یہ کہتے ہو کہ ”ابراہیم ، اسماعیل ، اسحاق ، یعقوب اور انکی اولاد سب یہودی یا عیسائی تھے؟” بھلا تم یہ بات زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ ؟ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو سکتا ہے جس کے پاس اللہ کی طرف سے شہادت موجود ہو پھر وہ سے چھپائے؟ اور جو کام تم کرتے ہو اللہ ان سے بے خبر نہیں ہے[140]یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی۔ ان کی کمائی ان کے لیے ہے۔ اور تمہاری تمہارے لیے۔ اور ان کے اعمال کے بارے میں تم سے بازپرس نہ ہوگی۔ البقرہ/ 135-141
ذراغور کریں !قرآن کریم نے ہدایت والا راستے کو کیسے ایک ہی راستے میں بند کردیا ، اور وہ ہے کہ یہودی اور عیسائی توحید و رسالت پر ایمان لائیں جیسے مسلمان ایمان لائے ہیں۔
خبردار! اس دھوکے میں مت آنا اس کا نام قرآن نے “اللبس”رکھا ہے، فرمایا:
( وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ) البقرة/42
ترجمہ: حق و باطل کو آپس میں خلط ملط مت کرو، اور نہ ہی حق چھپاؤ، حالانکہ تم جانتے بھی ہو۔
اسی کی تفسیر کے بارے میں قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: “یہودیت اور عیسائیت کو اسلام سے مت ملاؤ، اس لئے کہ اللہ کے ہاں دین اسلام ہی ہے، جبکہ یہودیت اور عیسائت نئی ایجادات میں سے ہے اللہ کی جانب سے نہیں” “تفسیر ابن ابی حاتم” (1/98)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” کوئی کہنے والا کہے: “معبود تو ایک ہی ہے چاہے راستے مختلف ہیں”یا اس جیسی اور باتیں کہے کہ عیسائیت یا یہودیت تحریف شدہ اور منسوخ ہونے کے باوجود معرفتِ الہی کا ذریعہ ہیں، یا ان میں دینِ الہی کے مخالف اعمال کو اچھا کہے اور ان پر عمل بھی کرے،یہ سب سراسر اللہ ، رسول، قرآن اور اسلام کے ساتھ پوری امت کے ہاں کفر ہے، اور اس دعوے کی وجہ ان ادیان میں کچھ امور پر مشابہت اور شراکت ہے” “اقتضاء الصراط المستقیم” (1/540)
شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ہر مسلمان کو اس دعوت کی حقیقت کا علم ہونا ضروری ہے، یہ فلسفی سوچ پر مبنی ہے، سیاست اسکی جائے پیدائش ہے، لادینیت اسکا ہدف ہے، ہمیشہ ایک نئے لباس میں اسکا ظہور مسلمانوں سے اپنے عقیدے، زمین،اور حکمرانی کا بدلہ لینے کیلئے ہوتا ہے، اس دعوت کا ہدف اسلام اور مسلمان ہیں جنہیں ان نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1- اسلام کے نام پر تشویش ، اور مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہو، ان کے ذہنوں میں شبہات اور شہوات کا انبار لگا دیا جائے، تا کہ ایک مسلمان کی زندگی نفرت کرنے والے اور تہذیب یافتہ لوگوں کے درمیان گزرے۔
2- اسلام کے پھیلاؤ کیلئے روک تھام کی جاسکے۔
3- اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، تا کہ اسلام کا نام و نشان تک باقی نہ رہے، مسلمانوں کو کمزور کیا جائے، دلوں سے ایمانی قوت کھینچ کر زمین میں دفن کر دی جائے۔
4- یہود و نصاری وغیرہ کی تکفیر سے مسلم قلم دان اور زبان کو لگام دی جائے، حالانکہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام نہ اپنانے اور دیگر ادیان کو گلے لگانے کی وجہ سے کافر کہا ہے۔
5- اتحاد بین الادیان کے تحت دین دشمن قوتیں، عالمِ اسلامی کو دین سے دور کرنا چاہتی ہیں، قرآن وسنت کوعملی زندگی سے الگ کرنا انکا ہدف ہے، ان اہداف کو پانے کی صورت میں انکے لئے گمراہ کن سوچ ، اخلاق باختہ معاشرہ بغیر کسی قوتِ مدافعت کے رائج کرنا انتہائی آسان ہوجائے گا،اور پھر باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کوئی بھی آگے نہ بڑھے، اور مسلمان ایسی جگہ پہنچ جائے جہاں دین اور اسلام کے دشمن اسے آسانی سے اچک سکیں، اور وہ اپنی گندے ہدف کو پانے میں کامیاب ہوجائیں، اور وہ ہے بلا روک ٹوک عالمی حکمرانی ۔
6- اس کا مقصد اسلام کو گرانا ،اور غلبہ اسلام اور اسکی خوبیوں کو مٹانا ہے، کیونکہ اسلامی تعلیمات ہمہ قسم کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ ہیں پھر اس کو تحریف شدہ اور منسوخ ادیان تو کیا دیگر بت پرست ادیان کے برابر کردیا جائے۔
7- یہ دعوت “تبشیری عیسائی مشنری”کیلئے راستہ ہموار کرتی ہے، جسکے لئے مسلمانوں کے ہاں موجود عقدی موانع کو ختم کیا جا تا ہے، اور مسلمانوں سے متوقع مخالفت کی آگ کو پہلے ہی سے ٹھنڈ اکیا جاتا ہے۔
8- ان سب اہداف کا ہدف یہ ہے کہ: یہود ونصاری اور کمیونزم (اشتراکیت)وغیرہ سے کفر کا لیبل اتار کرعالمِ اسلامی کے منہ پر تھوپ دیا جائے، خاص طور پر عرب دنیا پر، جو کہ عالم اسلامی کامرکز اور اسکا دارالحکومت ہے، یعنی “جزیرہ عرب”، عالمِ کفرجس پلاننگ کے لئے سرگرداں ہےکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک مشترکہ محاذ آرائی کی جائے ، فکری، ثقافتی، اقتصادی، اور سیاسی،ہر قسم کی کوشش کی جائے، اور پھر مشترکہ تجارتی مرکز کا انعقاد ہو، جہاں اسلام کی کوئی پابندی نہ ہو، جہاں کسی قسم کی اطاعت و فرمانبرداری کی پابندی نہ ہو، حلال کمائی کا نام تک نہ ہو، جس سے سود پھیلے ، برائیاں جنم لیں ، عقل و شعور سب حیا باختہ ہو جائیں ، خبیث روح کسی بھی فطرتِ سلیم یا شریعتِ مستقیم سے ٹکرانے کیلئے تیار ہو، ہمیں یہاں پر اللہ کا فرمان پڑھنا چاہئے:
( إنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ أَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ ) الأعراف/155
ترجمہ: یہ تو تیری ایک آزمائش ہےجس سے تو جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے تو ہی ہمارا سرپرست ہے۔ لہذا ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو ہی سب سے بڑھ کر معاف کرنے والا ہے۔
بکر ابو زید نے اپنے اس رسالے کے آخر میں یہ کہا: “مسلمانو ں پر اس نظریے کی تردید کرنا واجب ہے”اس لئے کہ ہمہ قسم کی تبدیلی اور تحریف سے محفوظ اسلام کے مقابلے میں ہر دین منسوخ ہے،اور یہ بات اسلام میں مسلمہ ہے۔
تمام روئے زمین کے لوگوں پر لازمی ہے کہ وہ متعددشریعتوں کو تسلیم کریں، اور یہ کہ اسلام ہی آخری شریعت ہے، سابقہ تمام شریعتوں کو اس نے منسوخ کردیا ہے، اس لئے کسی انسان کیلئے اسلام سے ہٹ کر دین اپنانا جائز نہیں۔
تمام لوگوں پر واجب ہے چاہے وہ اہل کتاب سے ہویا انکا تعلق کسی اور سے ہو کہ وہ اسلام قبول کریں، اسلامی تعلیمات پر جزوی اور کلی ہر طور پر ایمان لائیں، ان پر عمل کریں اور اسکے علاوہ تمام تحریف شدہ ادیان اور انکی مذہبی کتابوں کو چھوڑ کراسلا م میں داخل ہو جائیں جو ایسا نہیں کریگا وہ کافر اور مشرک ہے۔
کسی بھی شخص کیلئے روئے زمین پر یہودیت یا عیسائیت پر قائم رہنا جائز نہیں، چہ جائیکہ کہ کسی کو ان میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے، اس لئے اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کے پیروکار کو مسلم کہنا درست نہیں ، ایسے ہی اسے ملتِ ابراہیمی پر کہنا بھی صحیح نہیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو ہدایت دے، اور انکی آزمائش ختم کرے، اور مکاروں اور فریب کاروں سے انہیں بچائے، اور ہم سب کو ہمیشہ کیلئے اسلام پر قائم رکھے ، وہ اس پر یقینا قادر ہے، وصلی اللہ علی نبینا محمد ، و آلہ و صحبہ و سلم۔
رسالہ: “ابطال لنظرية الخلط بين دين الإسلام و غيره من الأديان”(ص: 105-103)۔
نیز ہماری ویب سائٹ پر فتوی نمبر: (10213) ، (10232) ، (128172) بھی دیکھیں۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات