میں قطعی الثبوت احادیث کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں، میرے فہم کے مطابق قطعی الثبوت احادیث وہ ہیں جن کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا قول ہونے میں کوئی شک نہ ہو لہذا ان احادیث کو سند کے بغیر بیان کرنا ممکن ہو۔ اس کے ساتھ ہی میرا ایک اور سوال بھی ہے کہ مسیح دجال کے بارے میں اعور کذاب، یعنی کانا کذاب کے الفاظ ہیں، یہاں مسیح کے لفظ سے پہلے ذہن سیدنا عیسیٰ کی جانب جاتا ہے، لیکن اس کے بعد پھر کذاب کا لفظ آ جاتا ہے، واضح رہے کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ لفظ صحیح بخاری میں آیا ہے، میرے ذہن میں جو خلفشار ہے وہ یہ ہے کہ کوئی کہنے والا کہے: کلیم اللہ، پھر اس کے بعد دجال جیسا کوئی منفی لفظ لگا دے تو میں تھوڑا سہم سا جاتا ہوں۔
قطعی الثبوت احادیث کون سی ہیں؟
سوال: 197164
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
قطعی الثبوت احادیث جن کا مطلب یہ ہے کہ ایسی احادیث جن کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف قطعی طور پر ثابت ہو ، اس کی چار قسمیں ہیں:
پہلی قسم: متواتر احادیث، یہ وہ احادیث ہیں جن کی سند کے تمام طبقات میں اتنی بڑی راویوں کی تعداد ہو جن کا عمداً یا اتفاقا جھوٹ پر متحد ہو جانا ناممکن ہو۔
حدیث متواتر کی تعریف کے حوالے سے مزید تفصیلات اور اقسام جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (34651 )کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوسری قسم: جسے صحیح بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے اور امت نے انہیں متفقہ طور پر قبول کیا ہے، تو اس آخری بات سے وہ معمولی روایات قطعی ہونے سے خارج ہو جائیں گی جن کے بارے میں بعض علمائے کرام نے نکتہ چینی کی ہے، لہذا ان روایات کے علاوہ جتنی بھی صحیح بخاری و مسلم کی روایات ہیں سب کی سب اہل علم کے راجح موقف کے مطابق قطعی الثبوت ہیں؛ کیونکہ ان روایات کے ساتھ قرائن مل چکے ہیں اور ان کو قبول کرنے پر اجماع امت ہے، اور امت نے ان تمام روایات کو قبول کر لیا ہے۔
چنانچہ ابن صلاح رحمہ اللہ اپنی کتاب مقدمہ ابن صلاح کے صفحہ: 28 – 29 میں کہتے ہیں: صحیح بخاری و مسلم کی احادیث قطعی طور پر صحیح ہیں اور یقینی علم کا فائدہ دیتی ہیں؛ کیونکہ صحیح بخاری و مسلم کی روایات کے صحیح ہونے پر تمام امت کا اجماع ہے، اور ساری امت کا اجماع غلطی سے معصوم ہوتا ہے، اس میں سے وہ چند احادیث مستثنی ہیں جن پر دارقطنی وغیرہ جیسے بعض اہل علم نے نکتہ چینی کی ہے۔
تو امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "تقریب" میں اس بات کا تعاقب کرتے ہوئے کہا:
"شیخ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ جو روایت بھی بخاری اور مسلم نے روایت کی ہے وہ قطعی طور پر صحیح ہے، اور اس سے علم قطعی بھی حاصل ہوتا ہے۔
اس موقف کی اکثر محققین نے مخالفت کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ظن کا فائدہ دیتی ہیں جب تک تواتر کی حد تک نہ پہنچے۔" ختم شد
" تدریب الراوی" (1/141)
جبکہ دوسری طرف متعدد محقق علمائے کرام اسی موقف کے قائل ہیں جو ابن صلاح کا ہے، چنانچہ انہوں نے امام نووی کی مخالفت کی ہے، جیسے علامہ سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسے ہی ابن عبد السلام نے ابن الصلاح کے اس موقف کو غیر مناسب قرار دیا ہے۔ بلقینی رحمہ اللہ کہتے ہیں: نووی، ابن عبد السلام اور ان کے موافق چلنے والے دیگر لوگوں کا موقف درست نہیں؛ کیونکہ بعض متاخر حفاظ حدیث نے ابن الصلاح جیسا موقف ، ابو اسحاق، ابو حامد اسفرائینی، قاضی ابو طیب، شیخ ابو اسحاق شیرازی جیسے متعدد شافعی علمائے کرام ، احناف میں سے سرخسی، مالکی فقہا میں سے قاضی عبد الوہاب، حنبلی فقہا میں سے ابو یعلی، ابو خطاب، ابن زاغونی۔ ابن فورک ، اور اکثر اشعری متکلمین، اور دنیا بھر کے محدثین سے نقل کی ہے، مزید یہ ہے کہ سلف کا عمومی طور پر موقف یہی تھا کہ جس حدیث کو امت قبول کر لے اس کے قطعی ہونے کے قائل ہوتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں: امام نووی نے مسلم کی شرح میں اکثر کی جانب سے جو موقف پیش کیا ہے، تو وہ محققین کا موقف نہیں ہے؛ کیونکہ ابن صلاح کے موقف پر بہت سے محققین ہیں۔
پھر شرح نخبہ میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں: ایسی خبر جو محتف بالقرائن ہو تو وہ علم کا فائدہ دیتی ہے، لیکن کچھ لوگوں نے اس بات کی تردید کی ہے۔ پھر مزید کہتے ہیں: خبر محتف بالقرائن کی کئی اقسام ہیں، ایک قسم وہ ہے جسے بخاری اور مسلم اپنی صحیح میں روایت کریں اور وہ تواتر کی حد تک نہ پہنچے؛ کیونکہ یہ روایت محتف بالقرائن ہے۔ ان قرائن میں سے ایک یہ ہے کہ: بخاری اور مسلم کا فن حدیث میں بہت اعلی مقام ہے، پھر ان دونوں کو دیگر محدثین پر صحیح احادیث کو ممتاز کرنے کی انفرادی سبقت اور خوبی بھی حاصل ہے، نیز ان دونوں کی کتابوں کو علمائے کرام نے قبول بھی کیا ہے، اور محض کسی روایت کی سندوں کے تواتر سے کم ہونے کے مقابلے میں علمائے امت کا ان کی کتابوں کو قبول کرنا ہی اس بات کے لیے کافی ہے کہ ان کی بیان کردہ روایات علم کا فائدہ دیتی ہیں، تاہم یہ بات صحیح بخاری و مسلم کی ایسی روایات کے ساتھ خاص ہے جن پر محقق محدثین کرام کی نکتہ چینی نہیں ہے۔۔۔ چنانچہ ان کے علاوہ جتنی بھی روایات ہیں ان کے صحیح ہونے کے بارے میں اجماع ہو چکا ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: میرا رجحان ابن صلاح کے ساتھ ہے کہ ان کی بات درست ہے۔
میں سیوطی کہتا ہوں کہ: میں بھی اسی موقف کا قائل ہوں اور اس کے علاوہ میرا کوئی موقف نہیں ہے۔" ختم شد
" تدريب الراوي " (1/ 142-145)
قطعی الثبوت روایت کی تیسری قسم: وہ ہے جس کو بخاری و مسلم نے روایت تو نہیں کیا لیکن ساری امت نے اسے قبول کیا ہے؛ کیونکہ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ امت کا کسی بات پر اجماع کر لینا غلطی سے خالی ہوتا ہے۔
چوتھی قسم: ا سی مشہور روایت جو متعدد ایسی سندوں سے منقول ہو کہ جن پر کوئی منفی تبصرہ نہ ہو۔
تفصیل کے لیے دیکھیں: " النكت على كتاب ابن الصلاح " از: ابن حجر (1/378)
بعض علمائے کرام نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ ایسی حدیث جس کو بیان کرنے والے تمام راوی بڑے بڑے حفاظ اور امام ہوں ، جیسے کہ کسی روایت کو امام احمد، امام شافعی سے اور شافعی امام مالک سے روایت کریں۔
تو یہ روایت علم کا فائدہ بھی دے گی اور اور قطعی الثبوت بھی ہو گی۔ تو یہ حدیث اپنے جلیل القدر راویوں کی وجہ سے علم کا فائدہ بھی دے گی اور قطعی الثبوت بھی ہو گی، بشرطیکہ ایسی روایت کی ایک سے زائد سندیں ہوں۔
دیکھیں: " تدريب الراوي " (1/144)
تو یہ ساری کی ساری احادیث قطعی الثبوت ہیں۔
خلاصہ یہ ہوا کہ: خبر متواتر، ایسی خبر واحد جو کہ محتف بالقرائن ہو اور اس سے علم قطعی حاصل ہو۔ بالکل اسی طرح کہ جس روایت کو امت نے قبول کیا ہو چاہے وہ صحیح بخاری و مسلم میں ہو یا صرف کسی ایک میں ہو، یا دونوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں ہو تو وہ قطعی الثبوت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح موقف جو کہ اکثر اہل علم کا ہے وہ یہ ہے کہ: بسا اوقات خبر دینے والوں کی کثرت کی وجہ سے بھی علم حاصل ہو جاتا ہے، اور کبھی علم ان کی دینی اور حافظے کی خوبیوں کی وجہ سے بھی حاصل ہو جاتا ہے، اور کبھی کبھار محتف بالقرائن خبر کے ملنے سے علم حاصل ہو جاتا ہے، پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی کو علم حاصل ہو جاتا ہے اور کسی کو نہیں ہوتا۔ اس لیے جس خبر کو ائمہ کرام نے قبول کیا ہو، اس کی تصدیق کی ہو، یا اس خبر کے موجب پر عمل کیا ہو تو وہ سلف و خلف کے جمہور اہل علم کے ہاں علم کا فائدہ دیتی ہے اور اس طرح یہ متواتر کے مفہوم میں ہے۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " (18/48)
چنانچہ مذکورہ بالا تفصیلات کے مطابق جب بھی کوئی حدیث ان اقسام میں سے کسی ایک قسم میں سے ہو تو اسے بغیر سند کے ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ ساتھ میں یہ ذکر کر دیا جائے کہ اس روایت کو کس محدث نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے جیسے کہ بخاری، مسلم، اور امام احمد وغیرہ ۔۔۔ اسی طرح ساتھ میں یہ بھی ذکر کر دیا جائے کہ اس حدیث کو کس نے صحیح قرار دیا ہے تا کہ حدیث کی صحت جان کر سامع بھی مطمئن ہو جائے۔
دوم:
مسیح دجال کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ جب لفظ مسیح اکیلا بولا جاتا ہے تو اس سے مراد عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ہوتے ہیں ، لیکن جب آخر میں قید بھی لگا دی جائے کہ مسیح دجال تو پھر اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد کوئی اور شخص ہے۔
جیسے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسیح کا لفظ دجال پر بھی بولا جاتا ہے اور عیسیٰ بن مریم علیہ السلام پر بھی، لیکن مسیح سے جب دجال مراد لیا جائے گا تو ساتھ میں دجال کا لفظ بولا جائے گا۔" ختم شد
پھر متعدد احادیث میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دجال کو مسیح دجال کہا ہے، چنانچہ جب یہ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہنا ثابت ہے تو پھر کسی کے لیے یہ کہنا اچھا نہیں ہے کہ اسے یہ لفظ مشکوک لگتا ہے، یا اس لفظ کے استعمال میں تردد کرے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات