سوال: میں کافی عرصہ پہلے حج کیلئے گیا تھا، اور طواف افاضہ کرتے ہوئے کسی ایک چکر میں حطیم کے اندر سے گزر گیا، مجھے اسوقت معلوم نہیں تھا کہ یہ حصہ بیت اللہ کے اندر شمار ہوتا ہے، چنانچہ میرے ذہن میں شکوک پیدا ہوئے تو میں نے اپنے رفقائے کرام سے پوچھ لیا تو انہوں نے جواب دیا کہ طواف درست ہے، اس لئے کہ میں نے چھ چکر درست انداز سے لگائے ہیں، اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے موقف کے مطابق طواف درست ہونے کیلئے یہ کافی ہے، اس کے بعد میں کے مختلف سالوں میں عمرے کئے، اس دوران میں نے حرم میں موجود دفاتر سے اپنے اس طواف کے بارے میں سوال کیا تو شیخ نے مجھے جواب دیا کہ: “یہ صحیح ہے، لیکن مجھے آئندہ کیلئے درست انداز سے عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، اسی طرح میں نے متعدد علمائے کرام سے بذریعہ انٹرنیٹ کے بھی دریافت کیا تو سب کے جوابات مختلف تھے، کچھ کا کہنا تھا کہ مجھے طواف دوبارہ کرنا پڑے گا، اور جماع کی وجہ سے دم دینا ہوگا، کسی نے کہا کہ: مجھ پر واجب کام درست انداز سے نہ کرنے کی بنا پر صرف دم واجب ہے، اور کچھ نے یہ بھی کہا کہ: آپ پر کچھ بھی نہیں ہے، کیونکہ آپ نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا”
تو اب میں کیا کروں؟
حج کے دوران طواف کرتے ہوئے ایک چکر حطیم کے اندر سے لگایا تھا، اب وہ اپنے ملک واپس آچکا ہے۔
سوال: 204827
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
جمہور مالکی، شافعی، اور حنبلی فقہائے کرام نے صحیح طواف کیلئے یہ شرط رکھی ہے کہ طواف مکمل بیت اللہ کا کیا جائے، اور جس شخص نے حطیم کے اندر سے چکر لگایا تو یہ چکر طواف میں شمار نہیں ہوگا؛ کیونکہ اس شخص نے فرمانِ الہی کے مطابق مکمل بیت اللہ کا چکر نہیں لگایا، فرمانِ باری تعالی ہے: ( وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ) اور انہیں پرانے گھر [بیت اللہ]کا طواف کرنا چاہئے۔ [الحج: 29] اور حطیم کے اندر سے طواف کرنے والا مکمل بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا؛ اس لئے کہ حطیم بھی کعبہ ہی میں شامل ہے، اس لئے اس چکر کو طواف میں شمار ہی نہیں کیا جاسکتا۔
انہی فقہائے کرام کا یہ موقف ہے کہ طواف کیلئے ساتوں چکر ہی لازمی ہیں، چنانچہ جس شخص نے بھی طواف کا ایک چکر بھی کم کیا تو اسکا طواف شمار نہیں ہوگا، اس موقف کے مطابق آپ پر متعدد امور لازم آتے ہیں:
1-آپ مکہ واپس جا کر طوافِ افاضہ کریں۔
2-اور اگر آپ حج تمتع کر رہے تھے تو حج کی سعی بھی کرنی پڑے گی، کیونکہ آپ نے سعی ایسے طواف کے بعد کی تھی جو کہ درست نہیں تھا، اس لئے اس سعی کو بھی شمار نہیں کیا جاسکتا، اور اگر آپ نے حج افراد یا قِران کرتے ہوئے طوافِ قدوم کے بعد سعی نہیں کی تھی تو بھی آپکو سعی دوبارہ کرنا ہوگی۔
3-جماع کرنے کی وجہ سے آپکو دم دینا پڑے گا، دم کیلئے آپکو حنبلی فقہائے کرام کی جانب سے اختیار ہے: بکری ذبح کریں، یا چھ مساکین کو کھانا کھلائیں، ہر مسکین کو ایک “مد “گندم کا دیں، یا پھر نصف صاع کسی اور چیز کا دیں، یا پھر تین روزے رکھیں، اور “مد” کی مقدار تقریباً 750 گرام ہے، جبکہ “نصف صاع” دو “مد ” کے برابر ہوتا ہے۔
دیکھیں: ” المدونۃ ” (1/425) ، ” مواهب الجليل ” (3/70 ، 72 ، 73 )، ” المجموع ” (8/32 )، ” المغنی ” (3/189)، اور ” كشاف القناع ” ( 2/530)
ابن قدامہ رحمہ اللہ اس مسئلہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
“حطیم بھی اپنے طواف میں شامل کریگا، کیونکہ حطیم بھی کعبہ کا حصہ ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے پورے کعبہ کا طواف کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ( وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ) اور انہیں پرانے گھر [بیت اللہ]کا طواف کرنا چاہئے۔ [الحج: 29] اور حطیم بیت اللہ کا ہی حصہ ہے، چنانچہ جس شخص نے بیت اللہ کا حطیم کے باہر سے طواف نہیں کیا تو اسکا یہ طواف شمار نہیں ہوگا، اسی کے عطاء، مالک، شافعی، ابو ثور، اور ابن منذر قائل ہیں، جبکہ اہل الرائے کا کہنا ہے کہ: اگر ایسا ناقص طواف کرنے والا شخص مکہ ہی میں ہے، تو باقی طواف مکمل کر لے، اور اگر کوفہ واپس آگیا ہے تو اس پر دم ہوگا”انتہی
” المغنی” (3/189)
دوم:
احناف کہتے ہیں کہ جو شخص طواف کے نصف سے زائد چکر لگا لے تو اس کی طرف سے طواف ہوجائے گا، چنانچہ احناف کے ہاں اکثر چکر کی تعداد تین مکمل چکر اور چوتھے چکر کا آدھے سے زیادہ حصہ ہے۔
اسی طرح احناف کے ہاں جو شخص سارے کے سارے چکر حطیم کے اندر سے طواف کرے تو وہ شخص طواف کا اکثر حصہ ادا کر دیتا ہے، جبکہ ایک چوتھائی حصہ باقی رہتا ہے، کیونکہ حطیم کا رقبہ بیت اللہ کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہے، اس لئے ان کے ہاں جو شخص چھ چکر طواف کے لگائے، یا طواف کے تمام یا کچھ چکر حطیم کے اندر سے لگا کر اپنے علاقے میں چلا جائے تو اسے دو اختیارات ہیں:
پہلا: مکہ واپس آئے، احرام باندے، اور اپنے باقی چکر مکمل کرے، اور ہر چکر کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا بھی کھلائے، جسکی مقدار دو مد گندم کے برابر ہو۔
دوسرا: یہ ہے کہ بکری مکہ ارسال کرے، یا پھر اپنی طرف سے کسی کو مکہ میں بکری ذبح کرنے کا وکیل مقرر کر دے، اور فقرائے حرم میں تقسیم کردی جائے۔
اور جو شخص طواف کے بعد اپنی بیوی سے جماع بھی کر لے تو انکے ہاں ایسے شخص پر کچھ نہیں ہے کیونکہ اس نے اتنی مقدار میں طواف کر لیا ہے جو کہ قابل قبول ہے۔
مزید کیلئے دیکھیں: “المبسوط ” (4/43، 46) اور” بدائع الصنائع ” (2/132)
سرخسی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“حج یا عمرے کا واجب طواف کرتے ہوئے حطیم کے اندر سے گزر گیا تو مکہ میں موجودگی کی صورت میں اپنا طواف مکمل کرے گا، اور اگر اپنے گھر واپس آ چکا ہے تو اس پر دم لازم ہوگا؛ کیونکہ جتنی مقدار میں اس نے طواف نہیں کیا وہ کم ہے، اس لئے کہ اس نے صرف حطیم کے باہر سے طواف نہیں کیا، بقیہ طواف کیا ہے، اور پہلے ہم بتلا چکے ہیں کہ اگر طواف کی نصف سے کم مقدار چھوڑ دے تو اسے طواف مکمل کرنا ہوگا، اور اگر مکمل نہ کرے تو اس پر ہمارے نزدیک دم لازم آئے گا، تو یہ مسئلہ بھی اسی طرح ہوگا۔
ویسے ہمارے ہاں افضل یہی ہے کہ پورا طواف ہی دوبارہ سے کرے، تا کہ مسنون ترتیب بھی باقی رہے، اور اگر اس نے صرف حطیم کے باہر سے چکر لگا کر طواف کے نقص کو پورا کیا تو یہ بھی کفایت کر جائے گا، کیونکہ اس نے نقص پورا کردیا ہے”انتہی
“المبسوط ” (4/46)
سوم:
مذکورہ مسئلہ میں راجح وہی ہے جو جمہور فقہائے کرام کا موقف ہے؛ کیونکہ انکے دلائل قوی ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی انکی تائید کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم مجھ سے مناسک کا طریقہ سیکھ لو) حقیقت میں یہ فرمانِ نبوی اللہ تعالی کے اس حکم کی تفسیر ہے: ( وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ) اور انہیں پرانے گھر [بیت اللہ]کا طواف کرنا چاہئے۔ [الحج: 29] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سات چکر لگا کر طواف مکمل کیا اور سب کے سب چکر حطیم کے باہر سے تھے، تو اس سے معلوم ہوا کہ ہر شخص پر واجب متعین کہ ہے کہ طواف کا ہر چکر اسی طرح ادا کرے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا۔
چہارم:
آپ اسوقت اپنے احرام کی حالت میں باقی ہو، چنانچہ آپکے لئے جماع کرنا جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ آپ طواف اور سعی کرنے کے بعد تحلل اکبر حاصل کر لیں۔
پنجم:
طواف کو صحیح قرار دینے کیلئے حنفی مذہب کے مطابق فتوی صرف اسی شخص کو دیا جائے جسکے لئے مکہ میں آنا مشکل یا ناممکن ہو، تا کہ اس موقف کو سامنے رکھ کر اسکے لئے گنجائش پیدا ہوسکے، چنانچہ اگر آپ مکہ نہی آسکتے ، تو ایسی صورت میں حنفی مذہب اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن آپ پر ایک بکری ذبح کرنا لازم ہے، جو کہ فقرائے حرم میں تقسیم کی جائے گی، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔
مزید تفصیلات کیلئے آپ سوال نمبر: (106544) اور (46597) کا مطالعہ کریں۔
ششم:
ہر شخص پر لازمی ہے کہ وہ عبادات کی ادائیگی سے قبل عبادات سے متعلقہ احکامات سیکھ لے، اور جن مسائل کے بارے میں شکوک ہوں تو اہل علم سے پوچھ لے، اور کسی بھی شخص کے علم اور تقوی کی چھان بین کے بغیر سوال کرنے پر اکتفا مت کرے۔
اور اگر اُس وقت جس شخص سے آپ نے دریافت کیا تھا، اور اس نے آپکو حنفی مذہب کے مطابق فتوی دیا تھا، وہ شخص فتوی دینے کا اہل تھا، یا آپکے حج گروپ کا معلم تھا، اور آپ نے اسے فتوی دینے کے لائق بھی سمجھا تھا تو آپ پر کچھ بھی لازم نہیں ہے، اور آپ اسکے موقف پر عمل کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں بھلائی اور توفیق دے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات