سوال: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب تک چاند نہ دیکھو روزہ مت رکھو، اور روزے اسی وقت چھوڑو جب [عید کا ]چاند دیکھ لو، اگر مطلع ابر آلود ہو تو اس کیلیے اندازہ لگاؤ) تاہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چاند دیکھنے کا وقت مقرر نہیں فرمایا، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں چاند دیکھنے کیلیے غروبِ آفتاب کے بعد کا وقت ہی مناسب تھا؛ کیونکہ اس وقت اس کے علاوہ کوئی چارہ کار ہی نہیں تھا۔ لیکن آج کل جدید آلات کی مدد سے چاند کی پیدائش کے چند سیکنڈوں کے بعد ہی چاند دیکھنا ممکن ہے، کچھ ایسا ہی پیرس میں ہوا کہ 29 شعبان کو صبح کے وقت بڑی آسانی سے چاند کی تصاویر اتاری گئیں:
http://legault.perso.sfr.fr/new_moon_2013july8.html
اس کے علاوہ بر اعظم امریکہ میں بھی لوکل وقت کے مطابق 18:8 بجے چاند کی تصاویر لی گئیں:
http://www.makkahcalendar.org/en/photoGallery.php
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عصر حاضر کے فقہائے کرام رویت ہلال کیلیے مغرب کے بعد کا وقت ہی کیوں مقرر کرتے ہیں پہلے کیوں نہیں دیکھتے؟ یہ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رویت ہلال غروب آفتاب کے ساتھ منسلک نہیں فرمایا۔
دن کے وقت چاند دیکھنے پر قمری مہینہ شروع یا ختم کیا جا سکتا ہے؟
سوال: 207382
جواب کا خلاصہ
سابقہ پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ: شرعی طور پر جس رویت کو معتبر قرار دیا گیا ہے اور جس کی بنا پر روزے رکھنے یا چھوڑنے کا حکم لاگو ہوتا ہے وہ صرف غروبِ آفتاب کے بعد والی رویت ہے، جبکہ دن کے وقت نظر آنے والے چاند پر کوئی حکم لاگو نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اللہ تعالی نے چاند کو رات کی علامت بنایا ہے؛ چنانچہ یہ رات کے وقت ہی ظاہر اور عیاں ہوتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا
ترجمہ: ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنایا ہے، رات کی نشانی کو تو ہم نے بے نور کر دیا اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اپنے رب کا فضل تلاش کر سکو اور اس لیے بھی کہ سالوں کا شمار اور حساب معلوم کر سکو اور ہر چیز کو ہم نے خوب تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ [الإسراء: 12]
ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
“مطلب یہ ہے کہ ہم نے رات کے لیے علامت بنائی، یعنی: اندھیرے چھانے اور چاند کے طلوع ہونے سے رات کا علم ہوتا ہے، اسی طرح دن کی بھی علامت بنائی ہے اور وہ روشنی اور طلوعِ آفتاب ہے، اسی طرح اللہ تعالی نے سورج اور چاند میں فرق کرنے کیلیے ان کی روشنی میں فرق کیاہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ
ترجمہ: وہی ہے جس نے سورج کو تیز روشنی اور چاند کو نور والابنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں، تاکہ تم سالوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو، اللہ نے ان چیزوں کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے [يونس: 5] ” انتہی
“تفسیر ابن كثیر” (5/50)
اس لیے چاند سے تعلق رکھنے والے تمام کے تمام احکامات رات کے وقت دیکھنے سے ہی ثابت ہوں گے دن کے وقت اگر چاند نظر آئے تو احکامات ثابت نہ ہوں گے۔
ابو الحسنات لکھنوی کہتے ہیں :
“اس کا مطلب یہ ہوا کہ چاند رات کی نشانی ہے دن کی نہیں، اس لیے چاند اگر دن کے وقت نظر آ جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا، لہذا رویت ہلال حج اور روزوں وغیرہ سمیت قمری تقویم اور کیلنڈر کیلیے اسی وقت معتبر ہو گی جب چاند رات کے وقت نظر آئے، کسی اور وقت کی رؤیت معتبر نہیں ہو گی” انتہی
“الفلك الدوار في رؤية الهلال بالنهار” (ص: 18)
یہی وجہ ہے کہ علمائے کرام کے ہاں اگر چاند دن کے وقت گرہن ہوتا ہوا نظر آئے تو اس وقت نماز خسوف نہیں پڑھی جائے گی؛ کیونکہ چاند رات کے وقت نہیں بلکہ دن کے وقت نظر آیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر طلوع شمس کے بعد چاند کو گرہن لگنا شروع ہو جائے تو [شافعی]مذہب میں بلا اختلاف چاند گرہن کی نماز نہیں پڑھی جائے گی” انتہی
“المجموع شرح المهذب” (5/54)
دوم:
چاروں فقہی مذاہب سمیت علمائے کرام کی عام رائے یہی ہے کہ دن کے وقت رویت ہلال پر کوئی بھی حکم لاگو نہیں ہو گا، چنانچہ اگر کوئی روزے دار 30 رمضان کو دن کے وقت چاند دیکھ لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے چھوڑے مت، اسی طرح اگر غیر روزے دار نے 30 شعبان کو چاند دیکھا تو اسے اس دن کا روزہ نہیں رکھنا پڑے گا اور نہ ہی قضا دینا ہو گی؛ کیونکہ دن کے وقت چاند نظر آنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، بلکہ رویت ہلال کا وقت صرف سورج غروب ہونے کے بعد ہی معتبر ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ (3/67) میں صحیح سند کے ساتھ ابو وائل سے مروی ہے کہ:
“ہمارے پاس عمر رضی اللہ عنہ کا خط آیا اور ہم اس وقت خانقین میں تھے؛ کہ چاند [مختلف علاقوں میں] بڑا چھوٹا نظر آ سکتا ہے، اس لیے اگر تم دن کے وقت چاند دیکھو تو روزہ مت چھوڑنا، یہاں تک کہ دو مسلمان گزشتہ رات چاند دیکھنے کی گواہی دے دیں” انتہی
اسی طرح بیہقی میں صحیح سند کے ساتھ ہے کہ سالم بن عبد اللہ بن عمر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کچھ لوگوں نے عید کا چاند دن کے وقت دیکھا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس دن اپنا روزہ مکمل کیا اور کہنے لگے: ہم اس وقت تک عید نہیں کرینگے جب تک رات کے وقت چاند نظر نہ آئے” انتہی
سنن الکبری از بیہقی (2/435)
اسی طرح فتاوی عالمگیری (1/197)میں ہے کہ:
“اگر چاند زوال سے پہلے یا بعد میں نظر آئے تو اسے دیکھ کر روزہ رکھا جائے گا اور نہ ہی چھوڑا جائے گا” انتہی
ابو اسحاق شیرازی کہتے ہیں کہ:
“عید اور رمضان کا چاند وہی ہے جو مغرب کے بعد دیکھیں” انتہی
المہذب: (3/33)
شمس الدین الرملی کہتے ہیں:
“اگر چاند 29 تاریخ کو دن کے وقت نظر آئے رات کو نظر نہ آئے: تو ایسا کوئی بھی فقیہ نہیں ہے جو چاند کو دن کے وقت دیکھنے پر چاند نظر آنے سے متعلقہ احکامات لاگو کرے؛ کیونکہ یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ دن کے وقت چاند دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا” انتہی
فتاوی الرملی: (2/78)
اسی طرح “کشف القناع” (2/303) میں ہے کہ:
“دن کے وقت ہلال دیکھنے کا کوئی اثر نہیں پڑتا، چنانچہ مؤثر رویت مغرب کے بعد کی ہی ہے” انتہی
اسی طرح لکھنوی کہتے ہیں :
“چاروں فقہائے کرام نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ : صحیح بات یہی ہے کہ ہلال دن کے وقت دیکھنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، بلکہ اصل اعتبار رات کے وقت دیکھنے کا ہی ہے” انتہی
“الفلك الدوار” (ص: 19)
چنانچہ جن احادیث میں رمضان یا عید کو رویت ہلال کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے وہ دن کے وقت رؤیت کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ غروب شمس کے بعد رویت ہلال سے متعلق ہے۔
صدیق حسن خان کہتے ہیں کہ:
“صاحب شریعت نے اپنے فرمان: “صوموا لرؤيته”[چاند دیکھ کر روزہ رکھو] میں جس رؤیت کا اعتبار کیا ہے وہ رات کے وقت کی رؤیت ہے، دن کے وقت کی نہیں ہے؛ کیونکہ دن کے وقت کی رؤیت معتبر ہی نہیں ہے، چاہے یہ رؤیت زوال کے بعد ہو یا پہلے، چنانچہ جس شخص کا موقف اس سے متصادم ہے تو وہ شرعی مقاصد سے کوسوں دور ہے” انتہی
“الروضة الندية” (2/11)
ابو الحسنات لکھنوی کہتے ہیں:
“کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہلال جس وقت بھی نظر آئے تو یہ مطلق طور پر روزہ چھوڑنے کا موجب ہو گا؛ کیونکہ حدیث میں ہے کہ:”أفطروا لرؤيته”[چاند دیکھ کر روزہ چھوڑ دو] ان کے مطابق اب یہاں دن اور رات میں فرق نہیں کیا گیا، جبکہ حقیقت میں وہ لوگ احادیث کے صحیح معنی و مفہوم سے غافل ہیں کہ حدیث میں رؤیت مراد ہے جو کہ صرف رات کو ہوتی ہے دن کے وقت نہیں ہوتی” انتہی
“الفلك الدوار” (ص: 9)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“کسی بھی قمری مہینے کی ابتدا غروب شمس کے بعد کی رؤیت ہلال سے ہی ممکن ہے” انتہی
“مجموع فتاوی و رسائل عثیمین” (16/301)
سوم:
متعدد فقہائے کرام کی گفتگو میں ہے کہ جب ہلال دن کے وقت دیکھا جائے تو وہ آنے والی رات کا ہوتا ہے گزشتہ رات کا چاند نہیں ہوتا، فقہائے کرام کی اس بات کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ دن کے وقت چاند نظر آنے پر رویت ہلال کے احکامات مرتب ہوں گے؛ کیونکہ اصل میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب چاند شعبان یا رمضان کی 30 تاریخ کو دن کے وقت نظر آئے تو یہ آئندہ رات کا چاند ہے ؛ اس لیے کہ 30 دن پورے ہونے کی وجہ سے مہینہ مکمل ہو چکا ہے، لہذا فقہائے کرام کی یہ بات حقیقتِ حال بیان کرنے کیلیے ہے نہ کہ دن کے وقت چاند نظر آنے پر احکامات لاگو کرنے کیلیے، نیز دوسری طرف فقہائے کرام کی اس بات کا یہ مقصد بھی ہے کہ قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ کے موقف کا رد ہو کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ 30 تاریخ کو دن کے وقت نظر آنے والا چاند گزشتہ رات کا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر [قمری مہینے کی 30 تاریخ کے] دن کے وقت چاند نظر آ جائے تو یہ آئندہ رات کا ہے چاہے چاند زوال سے پہلے نظر آئے یا بعد میں، ہمارا بلا اختلاف یہی موقف ہے، اسی کے ابو حنیفہ ، مالک، اور محمد رحمہم اللہ جمیعاً قائل ہیں” انتہی
” المجموع ” (6/279) اسی طرح کی گفتگو “المغنی” از: ابن قدامہ (3/173) میں بھی ہے۔
قلیوبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“دن کے وقت رویت ہلال سے کوئی اثر نہیں پڑتا، مطلب یہ ہے کہ: دن کے وقت چاند نظر آئے تو اسے گزشتہ رات کا شمار کر کے روزہ چھوڑا نہیں جا سکتا اور آئندہ رات کا شمار کر کے رمضان کی ابتدا نہیں ہو سکتی ، تاہم ایک صورت میں اسے آئندہ رات کا چاند شمار کیا جا سکتا ہے جب 30 تاریخ کو دن کے وقت دیکھا جائے، تاہم دن کے وقت چاند نظر آنے پر اس چاند کی وجہ سے احکامات میں تبدیلی نہیں آئے گی؛ کیونکہ 30 تاریخ کو ویسے ہی قمری مہینہ مکمل ہو جاتا ہے، لیکن 29 تاریخ کو اگر دن کے وقت چاند نظر آئے تو پھر ایسا ممکن نہیں ہے؛ اس لیے 29 تاریخ کو مغرب کے بعد چاند دیکھنا ضروری ہے، کچھ لوگ دن کے وقت چاند دیکھنے کو معتبر سمجھتے ہیں لیکن ان کا موقف درست نہیں ہے” انتہی
“كنز الراغبین” (2/65)
اسی طرح ابن عابدین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“[ابو حنیفہ اور محمد بن حسن رحمہما اللہ] کے ہاں اگر چاند 30 تاریخ کو دن کے وقت نظر آ جائے تو اسے آئندہ رات کا شمار کرنا دن کے وقت چاند نظر آنے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ 30 تاریخ مکمل ہونے کی وجہ سے کیونکہ 30 تاریخ کو مہینہ پورا ہو جاتا ہے چاہے چاند نظر یا نہ آئے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ “البدائع “اور “الفتح” میں موجود صراحت کے مطابق دن کے وقت چاند دیکھنے کے بارے میں اختلاف اس وقت ہے جب وہ رمضان یا شعبان کی 30 تاریخ کو دیکھا جائےجس میں شک ہو کہ یہ دن کس ماہ کا ہے، چنانچہ اگر جمعہ کا دن 30 تاریخ کو بنتا ہو اور جمعہ کو دن کے وقت ہلال نظر آ جائے تو ابو یوسف کے ہاں جمعہ کا دن آئندہ مہینے کا پہلا دن ہو گا، جبکہ دونوں [ابو حنیفہ و محمد] کے ہاں اس رویت کا کوئی اعتبار نہیں ہے؛ چنانچہ ان کے ہاں مہینے کی ابتدا ہفتے سے ہو گی، اور ہفتے سے نئے مہینے کی ابتدا تو ہونی ہی تھی چاہے چاند نظر آئے یا نہ آئے؛ کیونکہ قمری مہینوں میں دنوں کی تعداد 30 سے زیادہ نہیں ہوتی، لہذا دن کے وقت چاند دیکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اب اس صورت میں اہل علم کا یہ کہنا کہ 30 تاریخ کو دیکھا جانے والا چاند آئندہ رات کا شمار ہو گا یہ اصل میں بیانِ حقیقت اور ان لوگوں کی صریح مخالفت ہے جو اس چاند کو گزشتہ رات کا شمار کرتے ہیں، اس پوری تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علمائے کرام کا یہ کہنا کہ دن کے وقت دیکھا جانے والا چاند معتبر نہیں ہے اور یہ کہنا کہ یہ چاند آئندہ رات کا ہو گا ان دونوں باتوں میں کوئی تصادم نہیں ہے۔
اختلاف کی صورت اس وقت بنتی ہے جب چاند ایسی 30تاریخ کو دن کے وقت دیکھا جائے جو مشکوک ہو ؛ کیونکہ اگر 29 تاریخ کو دن کے وقت چاند نظر آئے تو کوئی بھی اسے گزشتہ رات کا چاند نہیں کہتا؛ کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ قمری مہینہ 28 دنوں کا ہو گا، جیسے کہ کچھ محققین نے یہ بات صراحت کے ساتھ لکھی ہے” انتہی
“حاشیۃ ابن عابدین” (2/392)
ابن عثیمین رحمہ اللہ حجاوی رحمہ اللہ کی بات “اگر دن کے وقت چاند نظر آئے تو وہ آئندہ رات کا ہو گا”پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“یہاں مؤلف کا مطلب اور مقصود یہ نہیں ہے کہ چاند آئندہ رات کا ہو گا بلکہ انہوں نے اسے گزشتہ رات کا چاند قرار دینے والوں کی نفی کرنا چاہی ہے ؛ کیونکہ کچھ علما ء یہ کہتے ہیں کہ جب ہلال دن کے وقت سورج غروب ہونے سے پہلے نظر آئے تو یہ گزشتہ رات کا چاند ہو گا، اس لیے لوگوں کو اس دن روزہ رکھنا ہو گا، جبکہ کچھ علمائے کرام نے زوال سے پہلے اور بعد میں نظر آنے پر تفصیل بیان کی ہے۔
تاہم صحیح بات یہی ہے کہ دن کے وقت نظر آنے والا چاند گزشتہ رات کا نہیں ہے” انتہی
“الشرح الممتع” (6/307).
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب