میری مقعد کی اندرونی جانب زخم ہے، اور مجھے پاخانے کے بعد صفائی کیلئے مرہم لگانی پڑتی ہے، میں روزے کی حالت میں عام طور پرفجر کے بعد لگا لیتا ہوں، اور اس کیلئے میں اپنی انگلی کا استعمال کرتا ہوں، کہ اپنی مقعد میں انگلی داخل کر کے مرہم لگاتا ہوں، تو کیا اس سے میرا روزہ فاسد ہوجائے گا؟ میں یہ دوا تقریبا دو تین سال سے استعمال کر رہا ہوں، میں شرعی حکم جاننا چاہتا ہوں، خاص طور پر رمضان المبارک میں۔
مقعد کی اندرونی جانب مرہم لگانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا؟
سوال: 207701
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جمہور علماء کے نزدیک مقعد کے ذریعے سے پیٹ تک کسی چیز کو پہچانے پر روزہ فاسد ہوجاتا ہے، چنانچہ انگلی داخل کرنا بھی اسی میں شامل ہوگا، چاہے استنجاء کے دوران ہو یا ادویات وغیرہ لگانے کی شکل میں ہو، یا کسی بھی محلول کا حقنہ لینے کی شکل میں۔
جبکہ کچھ علماء نے کہا ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، یہ ابن حزم کا موقف ہے اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےاور موجودہ علماء میں سے شیخ ابن عثیمین رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔
اور اسکی توجیہ میں انہوں نے کہا ہے کہ :اس طرح روزہ ٹوٹنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، جبکہ اصل کے اعتبار سے روزہ ٹھیک ہوگا جب تک کوئی دلیل اسکے ٹوٹنے کی نہ ملے۔
“الموسوعة الفقهية” (2/87) میں ہے کہ :
” مالکی فقہاء -کے ہاں مشہور روایت کیمطابق -اور حنفی فقہاء کے ہاں مقعد کی جانب سے حقنہ لینے پر روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس پر قضا ہوگی، شافعی اور حنبلی حضرات کا بھی یہی مذہب ہے، دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور فرمایا: (روٹی کا کوئی ٹکڑا ہے؟)تو میں ایک ٹکیہ اٹھا لائی ، چنانچہ آپ نے اسے اپنے منہ میں رکھ لیا، اور فرمایا: (عائشہ! کیا اس میں سے کوئی چیز میرے پیٹ میں داخل ہوئی ہے؟ اسی طرح روزہ دار کے بوسے کا حکم ہے، بیشک روزہ کسی داخل ہونے والی چیز سے ٹوٹتا ہے، نکلنے والی شیء سے نہیں)
اسی طرح ابن عباس اور عکرمہ کہتے ہیں: “کسی چیز کے داخل ہونے سے روزہ ٹوٹتا ہے، نکلنے والی شیء سے نہیں” [اور تیسری دلیل کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ]حقنہ لینے والے کے پیٹ میں چیز اسکے اختیار سے پہنچتی ہے، تو یہ کھانے کی طرح ہوگا، [چوتھی دلیل یہ دی کہ] روزہ افطار کرنے کا مقصد بھی اس میں پایا جاتا ہے، اور وہ ہے کہ بدن میں کوئی ایسی چیز کا داخل ہو جو بدن کیلئے مفید ہو، لیکن مالکی فقہاء نے پیٹ میں داخل ہونے والی چیز کے بارے میں یہ شرط لگائی ہے کہ وہ مائع ہو، مالکی فقہاء کے علاوہ کسی نے یہ شرط نہیں لگائی۔
مالکی فقہاء کےغیر مشہور موقف کے مطابق -جس کے قائل شافعی فقیہ قاضی حسین بھی ہیں اور اِنکے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ انکا شاذ موقف ہے-اور اسی کو ابن تیمیہ نے بھی اختیار کیا ہے کہ: روزہ دار مقعد کی جانب سے حقنہ لے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، اور نہ ہی اس پر قضاء لازم ہوگی۔
اسکی وجہ یہ بیان کی کہ: روزہ مسلمانوں کے دین کا بنیادی رکن ہے اور اسکے احکامات کے متعلق معلومات کی ہر خاص و عام کو ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ اگر مذکورہ بالا اشیاء روزہ کی حالت میں اللہ کی طرف سے حرام ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اسکو بیان کرنا واجب تھا، چنانچہ اگر آپ نے ذکر کیا ہوتا تو صحابہ کرام کو بھی اسکا علم ہوتا، اور وہ پوری شریعت کی طرح امت کو بھی پہنچاتے، لیکن کسی اہل علم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی صحیح یا ضعیف ، متصل یا مرسل روایت کچھ بھی نقل نہیں کیا” انتہی
ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حقنہ اور آلہ تناسل یا کان میں قطرے ڈالنے کے بارے میں فقہاء کہتے ہیں کہ: پیٹ تک یا سر کے اندرونی حصہ تک –کیونکہ یہ بھی جوف ہی کہلائے گا-اگر کوئی چیز پہنچ جاتی ہے تو کھانے پر قیاس کرتے ہوئے اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
ابو محمد مزید کہتے ہیں:
“اللہ تعالی نے ہمیں روزے کی حالت میں کھانے، پینے، جماع، جان بوجھ کر قیء اور تمام گناہوں سے روکا ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ مقعد ، آلہ تناسل یا کان کے ذریعے سےبھی کھایا پیا جاسکتا ہو۔۔۔اور نہ ہی ہمیں کھائے پیئے بغیر پیٹ تک کسی چیز کے پہچانے سے منع کیا گیا ہے، اور نہ ہی پیٹ تک کسی چیز کو اس انداز سے پہنچانا حرام کیا گیا”
ماخوذ از: “المحلى” (4/349)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“سرمہ ڈالنا، حقنہ، آلہ تناسل میں قطرے ڈالنا، سر میں لگی چوٹ یا پیٹ کے زخم کا علاج کرنے کے بارے میں [روزہ ٹوٹنے کے متعلق]اہل علم کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے؛ چنانچہ کچھ اہل علم مذکورہ کسی بھی چیز سے روزہ کے ٹوٹنے کے قائل نہیں ہیں، اور کچھ سرمےکے علاوہ ہر چیز سے روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں، تو کچھ قطرے ڈالنے کے علاوہ ہر چیز سے روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں، اور کچھ قطرے اور سرمہ دونوں کے علاوہ ہر چیز سے روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں۔
اور راجح یہ ہے کہ : مذکورہ کسی بھی چیز سے روزہ نہیں ٹوٹتا، کیونکہ روزہ مسلمانوں کے دین کا بنیادی رکن ہے اور اسکے احکامات کے متعلق معلومات کی ہر خاص و عام کو ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ اگر مذکورہ بالا اشیاء روزہ کی حالت میں اللہ کی طرف سے حرام ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اسکو بیان کرنا واجب تھا، چنانچہ اگر آپ نے ذکر کیا ہوتا تو صحابہ کرام کو بھی اسکا علم ہوتا، اور وہ پوری شریعت کی طرح آگے امت کو بھی پہنچاتے، لیکن کسی اہل علم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں کوئی صحیح یا ضعیف ، متصل یا مرسل روایت کچھ بھی نقل نہیں کیا”
ماخوذ از: “مجموع الفتاوى” (25/233)، اسی طرح دیکھیں: “الشرح الممتع”(6/368) ، اور “مجلہ مجمع الفقہ الإسلامی ” (10/638)
مذکورہ بالا تفصیل کے بعد: اگر روزہ دار حقنہ لینے کا عمل افطاری کے بعد تک مؤخر کر سکتا ہے تو روزہ دار کیلئے یہی بہتر اور محتاط ہے ، کیونکہ بہت سے اہل علم ان چیزوں سے روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں۔
اور اگر افطاری کے بعد تک حقنہ لینے کا عمل مؤخر کرنا مشقت طلب ہو، یا تاخیر کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ ہو تو علاج کیلئے ادویات دوران روزہ بھی استعمال کرسکتا ہے، چاہے اس کیلئے انگلی استعمال کرنی پڑے، اور ہمیں امید ہے کہ اسکی وجہ سے اُسے کوئی گناہ نہیں ہوگا، اور نہ ہی اسکا روزہ فاسد ہوگا، اور مذکورہ بالا تفصیل میں اس قول کے قائلین کا ذکر بھی گزر چکا ہے۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب