جب ميري عمر تيرہ برس تھي اور ميں بالغ بھي تھا توننگےہوكربہن كو اپنےساتھ چمٹايا اور وہ بھي ننگي تھي اور دونوں كي شرمگاہيں ايك دوسرے سےملي ہوئي تھيں لكين دخول نہيں ہوا، اب ميري عمر 23 برس ہوچكي ہے اورجوكچھ ہوا ميں اس كےسبب بہت شرمندگي محسوس كرتا ہوں ميں يہ جاننا چاہتا ہوں كہ آيا مجھ پر حد توواجب نہيں ہوتي ؟
اور كيا جب ميں توبہ كرلوں تو كياپھر بھي حد كےليےمجھے ضرور اعتراف كرنا ہوگا يا كہ صرف توبہ ہي كافي ہے ؟
بےلباس ہوكربہن كوگلےلگايا
سوال: 20848
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ كےليےواجب ہےكہ آپ اس قبيح اورشنيع عمل سےتوبہ كريں اور اس پر نادم ہوں اور يہ عزم كريں كہ آئندہ ايسا كام دوبارہ نہيں كريں گےاورجوكوئي بھي توبہ كرےاللہ تعالي اس كي توبہ قبول كرتا ہےجيسا كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے: جوشخص توبہ كرےاللہ تعالي اس كي توبہ قبول فرماتا ہے. صحيح بخاري حديث نمبر ( 6426 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 1048 )
اور آپ نےجوعظيم گناہ كا ارتكاب كيا ہے اس سےتو توبہ كرني واجب اور ضروري ہے ، اللہ تعالي سےہماري دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كومعاف فرمائے اورآپ كوسچي اور خالص توبہ كرنےكي توفيق عطا فرمائے.
آپ كو شرمندگي اورذلت محسوس كرنےكا حق پہنچتاہے اس ليےكہ مرد تواپنےاہل وعيال اوربہنوں كا دفاع اوربچاؤ كرتا ہے اوران كي عزت بچانےكےليے لڑتا بھي ہے نبي صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
( اورجوكوئي بھي عزت بچاتےہوئے قتل كرديا جائےوہ شھيد ہے )
توپھر يہ كيسےہوسكتاہےكہ وہ خود ہي مجرم اورعزت سےكھيلنےوالا اور گنہگار بن جائے ، اور ہوسكتاہے يہ واقعہ آپ كےيقين ميں اضافہ كا باعث بن جائے كہ اولاد كي صحيح تربيت اور انہيں اخلاق كريمہ سكھانےكي بہت زيادہ اہميت ہے اور پھر ان كےبستر عليحد كرنےاور برائي اور اخلاق رذيلہ كےاسباب سےدور ركھنےكي بھي بہت زيادہ اہميت ہے ، اور اسي طرح ايسےبرےوسائل جوانہيں اس فحش اور قبيح كام پر ابھاريں اور ان كي شھوت ميں ہيجان پيدا كريں اور انہيں جہنم كي طرف دھكيل ديں سے بھي دور ركھنےكي اہميت پائي جاتي ہے.
يہ سب كچھ ہوچكنےاور اس بيان كےبعد بھي ہم آپ كويہي نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنےآپ كي پردہ پوشي كريں اورجوكچھ ہوا كسي كوبھي اس كي خبر نہ كريں ، اورآپ پر كوئي حد نہيہ بلكہ آپ كےذمہ سچي اور خالص توبہ ہے اور اس كےساتھ ساتھ اعمال صالحہ بھي كثرت سےكريں كيونكہ ( نيكياں برائيوں كوختم كرديتي ہيں ) .
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب