سوال: میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالی دنیا ہی میں انسان کو اسکا ٹھکانہ بتلا دے جنت ہے یا جہنم ؟ مثال کے طور پر : اس جسم میں ایسی کوئی علامت پائی جائے؟ یا یہ شیطانی وسوسوں میں سے ہے؟
کیا کوئی ایسی علامات ہیں جن کی بنا پر انسان دنیا ہی میں اپنی آخرت کا انجام پہچان لے؟
سوال: 210492
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اہل سنت کا مذہب ہے کہ کسی کی تعیین کر کے جنت یا جہنم کا قطعی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا، صرف انہی لوگوں کے بارے میں یہ فیصلہ دیا جا سکتا ہے جن کے بارے میں شرعی دلیل مل جائے۔
اس کیلئے آپ سوال نمبر: (731) اور (185515) کا مطالعہ کریں
دوم:
یہ عام اصول ہے کہ : جو شخص بھی اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کریگا جنت میں داخل ہوگا، اور جو اللہ اور اسکے رسول کی نا فرمانی کریگا، جہنم میں داخل ہوگا، چنانچہ بخاری: (7280) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: (جنت میں داخلے سے انکار کرنے والوں کے علاوہ میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی) صحابہ کرام نے کہا: جنت میں جانے سے کون انکاری ہے؟! آپ نے فرمایا: (جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا، اور جس نے میری نا فرمانی کی یقیناً اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا)
لیکن مخلوقات میں سے کسی معین شخص کا انجام اللہ تعالی ہی جانتا ہے، اس لئے کسی کے بارے میں رحمت یا زحمت کا قطعی فیصلہ شرعی نصوص کے بغیر نہیں کیا جا سکتا، جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے، لہذا ہم قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ عشرہ مبشرہ صحابہ کرام جنتی ہیں، اور ایسے ہی قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ فرعون ، ہامان، اور ابو جہل جہنمی ہیں۔
اسی طرح ہم یہ بھی یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جو شخص عقیدہ توحید پر فوت ہوگا، وہ جنت میں داخل ہوگا، چاہے جنت میں جانے سے پہلے اسے گناہوں کی سزا بھی ملے، [لیکن آخر کار وہ جنت ہی میں جائے گا] اور جو شخص شرک پر فوت ہوا تو وہ جہنم میں جائے گا، لیکن اس کیلئے ہم کسی کا نام لیکر کچھ نہیں کہہ سکتے۔
سوم:
کچھ علامات ایسی ہیں جو انسان کے نیک صالح، اور اچھے خاتمے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اور کچھ علامات ایسی ہیں جو کہ انسان کے گناہگار اور برے انجام کی طرف اشارہ کرتی ہیں، لیکن ہیں پھر بھی یہ صرف اشارے ہیں، چنانچہ ان کی بنیاد پر قطعی فیصلہ کرنا ہمارے لئے بالکل ناممکن ہے، اس لئے تعیین کیساتھ کسی پر حکم لگانے کا معاملہ اللہ رب العالمین ہی کے ہاتھ میں ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللہ اہل سنت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“ہم نیک مؤمنوں کے بارے میں امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالی انہیں معاف فرما دے، اور اپنی رحمت کے صدقے انہیں جنت میں داخل فرما دے، اور ہم ان کے بارے میں مکمل طور پر عذاب سے بچنے کا قطعی حکم نہیں لگا سکتے ، اسی طرح یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ جنتی ہیں، ہم گناہگار مؤمنوں کیلئے اللہ سے بخشش مانگتے ہیں، اور ان کے بارے میں عذاب الہی کا اندیشہ رکھتے ہیں، لیکن انہیں اللہ کی رحمت سے مایوس بھی نہیں کرتے”
ابن حبان: (6891)، ابن ابی شیبہ: (7/100)، اور حاکم: (4515) نے صحیح سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ:
“جب عمر رضی اللہ عنہ کو خنجر لگے تو میں آپ کے پاس گیا، کہا:
امیر المؤمنین! جنت کی خوشخبری ہو! [کیونکہ]لوگ جس وقت کفر کر رہے تھے، آپ مسلمان ہوگئے، لوگ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ مل کر جہاد کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ سے راضی تھے، آپکی خلافت کے بارے میں [زیادہ تو کیا کسی] دو افراد نے بھی اختلاف نہیں کیا، اور اب آپ کو شہادت ملنے والی ہے” تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا:
” دوبارہ کہو [جو تم نے کہا ہے] “تو میں نے دوبارہ کہہ دیا
تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: “اللہ کی قسم ! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اگر مجھے زمین کا سارا سونا چاندی بھی مل جائے تو سارے کا سارا میں اپنی موت کے بعد والے خدشات کی ہولناکی کے بدلے میں دے دوں”
اور ابن حبان کے الفاظ ہیں کہ: “وہ شخص واقعی دھوکے میں جسے تم دھوکے میں ڈال دو! اگر مجھے زمین کا سارا سونا چاندی مل جائے تو سارے کا سارا میں اپنی موت کے بعد والے خدشات کی ہولناکی کے بدلے میں دے دوں “
طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود [یعنی: تمام حلال و حرام، اور شرعی احکام]کا ثواب بھی ہے اور اسکی سزا بھی ہے، جو انسان کو آخرت میں دیکھائے جائیں گے، اور قیامت کے دن انسان کو ملے گے، جیسے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: ” اگر مجھے زمین کا سارا سونا چاندی مل جائے تو سارے کا سارا میں اپنی موت کے بعد والے خدشات کی ہولناکی کے بدلے میں دے دوں ” یعنی وفات کے بعد اللہ کی طرف سے میرے بارے میں جاری ہونے والے احکامات ہیں ان سے خوفزدہ ہوں اس لئے اتنے مال کو بھی خرچ کر دونگا” انتہی
“تفسير طبری” (1/ 72)
یہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں اور ساتھ میں اللہ کی قسم بھی اٹھا رہے ہیں، حالانکہ وہ اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد سب سے افضل ترین ہیں، تو انکے علاوہ لوگوں کا کیا حال ہونا چاہئے؟!
امام احمد نے اپنی کتاب “الزہد”: صفحہ(128) میں کہتے ہیں: ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک دن فرمایا: “مؤمن کو اللہ تعالی سے ملاقات ہونے تک سکون نہیں ملتا”
اس اثر کو البانی رحمہ اللہ نے “الضعیفہ” (2/116) میں صحیح کہا ہے۔
کیونکہ (راحت اسی کو ملتی ہے جس کے گناہ سارے کے سارے معاف کر دئیے جائیں)؛ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے اسے احمد : (24399) نے روایت کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے “صحيح الجامع” (2319) میں اسے صحیح کہا ہے، اور قیامت کے دن سے پہلے کسی کو معلوم نہیں ہو گا کہ اسکی بخشش ہوئی ہے یا نہیں۔
محمد بن حسنویہ کہتے ہیں کہ :
“میں ابو عبد اللہ احمد بن حنبل [امام احمد]کے پاس آیا، تو ان کے پاس ایک آدمی خراسان سے تشریف لایا، اور کہا:
ابو عبد اللہ! میں تمہارے پاس خراسان سے ایک مسئلہ پوچھنے کیلئے آیا ہوں۔
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: پوچھو، تو اس نے کہا: بندے کو راحت کا ذائقہ کب ملے گا؟
امام احمد رحمہ اللہ نے کہا: “جس وقت اپنا پہلا قدم جنت میں رکھے گا” انتہی
“طبقات الحنابلۃ” (1/ 293)
مزید کیلئے سوال نمبر: (10903) اور (184737) کا مطالعہ کریں
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات