سوال: میں نوجوان لڑکی ہوں اور خود لذتی کی بیماری میں مبتلا ہوں، میں نے کئی بار اس برائی کو چھوڑا ہے لیکن دوبارہ پھر اس میں مبتلا ہو جاتی ہوں، میں نے کئی بات توبہ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن پھر دوبارہ اسی غلطی میں مبتلا ہو جاتی ہوں، لیکن جب بھی غلطی کر تی ہوں تو مجھے بہت زیادہ دکھ اور تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔
تو کیا اس گناہ سے بچنے کیلیے کوئی کار آمد طریقہ ہے؟ کہ میں دوبارہ اس کام میں ملوث نہ ہو سکوں، اور کیا اللہ تعالی میری توبہ قبول فرماتا ہے؟ میں نے خود لذتی کی جگہ پر کئی بار اپنے آپ کو جلانے کی کوشش بھی کی لیکن میں پھر دوبارہ اسی لعنت میں مبتلا ہو جاتی ہوں!
ایک لڑکی خود لذتی کی بیماری میں مبتلا ہے، ہر بار توبہ کرنے کے باوجود دوبارہ ملوث ہو جاتی ہے!!
سوال: 214787
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
یہ بات واضح ہے کہ: اللہ تعالی نے انسان کو پیدا فرمایا اور اس میں شہوت بھی رکھی ہے، اللہ تعالی کو شہوت کے مقابلے میں انسان کی کمزوری کا علم ہے، اسی لیے ہمارے لیے ایسے شرعی بندوبست کئے جن کی وجہ سے ہم حرام کاموں میں ملوث ہونے سے بچ سکتے ہیں، پھر اگر کوئی حرام میں ملوث ہو بھی جائے تو اللہ تعالی نے ہمارے لیے اس کا علاج بھی مہیا فرمایا تا کہ جہاں ہم غفلت اور بے راہ روی میں لتھڑے ہوئے نفس امارہ اور شیطانی چالوں کی وجہ سے گناہ کے راستے پر چل نکلے تھے وہاں سے واپس لوٹ آئیں۔
ایسی صورت حال میں خیر و بھلائی اور نجات کا بنیادی ذریعہ یہ ہے کہ: گناہ میں ملوث ہونے سے پہلے ہی نفس کا مقابلہ کریں، تمام ایسے امور سے دور ہو جائیں جو انسان کو گناہ پر ابھار سکتے ہیں یا گناہ کیلیے معاون بن سکتے ہیں، یا گناہ کو اچھا بنا کر پیش کر سکتے ہیں، تو انسان کو چاہیے کہ ہر وقت اپنا دین بچا کر رکھے اور اللہ تعالی سے لو لگائے، نفس امارہ سے دور بھاگے، برے دوستوں اور برے ماحول سے بچے، اللہ تعالی کے عذاب سے ڈر کر رحمت اور رضائے الہی کی جستجو میں لگا رہے۔
اور اگر پھر بھی گناہ میں ملوث ہو جائے تو اب اس کا علاج صرف یہی ہے کہ سچی اور پکی توبہ کرے، فوری اور لازمی طور پر اللہ تعالی سے اپنا ٹوٹا ہوا رابطہ استوار کرے، اس سے پہلے کہ موت اس کی توبہ کی راہ میں رکاوٹ بن جائے اور وہ گناہ کی حالت میں ہی یہاں سے چل بسے۔
صحیح بخاری: (7065) اور مسلم: (2758) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے حدیث قدسی بیان فرمائی:
اللہ تعالی فرماتا ہے: کوئی بندہ گناہ کرے اور پھر کہے: یا اللہ! میرا یہ گناہ معاف فرما دے!
تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے گناہ کیا اور اسے علم ہے کہ اس کا رب ہے وہی گناہوں کو بخشتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی کرتا ہے۔
بندہ پھر دوبارہ وہی گناہ کر کے کہتا ہے: پروردگار! میرا یہ گناہ معاف فرما دے!
تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے گناہ کیا اور اسے علم ہے کہ اس کا رب ہے وہی گناہوں کو بخشتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی کرتا ہے۔
بندہ پھر تیسری بار بھی وہی گناہ کر کے کہتا ہے: پروردگار! میرا یہ گناہ معاف فرما دے!
تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے گناہ کیا اور اسے علم ہے کہ اس کا رب ہے وہی گناہوں کو بخشتا ہے اور گناہوں پر پکڑ بھی کرتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کو معاف کر دیا، اب جو چاہے عمل کرے”
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث اور اس مسئلے سے متعلق دیگر احادیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“یہ احادیث اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ گناہ چاہے سو بار ہو جائے یا ہزار بار یا اس سے بھی زیادہ بار اور انسان ہر بار توبہ کرے تو اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے، اس توبہ کی وجہ سےاس کے گناہ دھل جاتے ہیں” انتہی
” شرح مسلم” از نووی (17/230)
لہذا مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں آپ کا معاملہ سچی توبہ کے ساتھ منسلک ہے اور سچی توبہ اس بات کو کہتے ہیں کہ: آپ مکمل طور پر گناہ چھوڑنے کا عزم کریں، اپنے آپ کو گناہ سے دور رہنے کا عادی بنائیں، اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کریں اور اس کیلیے معاون اقدامات بھی بروئے کار لائیں، ماضی میں سر زد ہونے والے گناہوں پر اظہار پشیمانی بھی کریں اور ان کی بخشش بھی مانگیں۔
البتہ آپ اپنے آپ کو جلانے ، قتل کرنے یا تسلسل کے ساتھ گناہ کرتے رہنے کے بارے میں سوچیں تو یہ موجودہ گناہ سے بھی کہیں بڑا گناہ ہو گا، ایسے شخص کی مثال تو یہی ہے کہ جو گرمی کی شدت سے جھلس رہا ہو اور اپنے آپ کو آگ میں ڈال دے؛ تو کیا کوئی عاقل ایسا عمل کر سکتا ہے؟!
دوم:
ہمارے پاس کوئی جادوئی طریقہ اور عمل تو نہیں ہے کہ آپ کو بتلائیں اور آپ فوری طور پر اس گناہ کی دلدل سے باہر آ جائیں، البتہ آپ اس گناہ سے بچنے کیلیے محنت ، ڈٹ کر نفس امارہ کا مقابلہ اور سچی توبہ کر کے ثواب کی امید کر سکتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کچھ عملی اقدامات بھی ہیں جو آپ کیلیے گناہ سے دور رہنے میں معاون ثابت ہوں گے، ان شاء اللہ
– سب سے پہلے شادی: یہ سب سے افضل اور عظیم ترین علاج ہے، بلکہ شہوت کو بنی نوعِ آدم کے جسم میں رکھنے کا مقصد اور ہدف بھی ہے، کہ شہوت کی وجہ سے شادی پر راغب ہوتے ہیں اور انسانی نسل کی افزائش کا ذریعہ بنتے ہیں، صرف اس لیے کہ یہ کائنات اللہ تعالی کی مقرر کی ہوئی عمر پوری کرے اور یہاں انسانیت باقی رہے۔ اس لیے آپ جلد از جلد شادی کی کوشش کریں اور اپنی پڑھائی یا اسی طرح کے دوسرے بہانوں کو آڑ بنا کر آنے والے مناسب رشتے کو مسترد مت کریں۔ کیونکہ اس وقت آپ کیلیے شادی دیگر کسی بھی مقصد سے ضروری ہے؛ بلکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ آپ خود اچھے خاوند کی تلاش میں لگ جائیں یعنی اپنی دین دار مخلص اور اچھی سہیلیوں اور جاننے والی خواتین کئ ذریعے رشتہ تلاش کریں، آپ جیسی نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت فرمائی ہے کہ: (نوجوانو! جو تم میں سے شادی کے اخراجات کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ شادی کر لے؛ کیونکہ شادی سے نظریں جھک جاتی ہیں اور شرمگاہ محفوظ ہو جاتی ہے، اور اگر کسی کے پاس استطاعت نہیں ہے تو وہ روزے رکھے اس سے شہوت ٹوٹ جائے گی) متفق علیہ
– ایسی فلموں، ڈراموں اور رومانسی قصوں اور کہانیوں سے بالکل دور رہیں جن کی وجہ سے شہوت بھڑکتی ہے، اسی طرح حیا باختہ ویب سائٹس سے دور رہیں ، کسی بھی ایسی دیکھنے، سننے کی چیز سے دور رہیں جس سے شہوت انگیخت ہوتی ہو یا مخلوط مجالس سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔
– اپنے آپ کو فارغ مت رکھیں بلکہ ہر وقت کسی نہ کسی مفید سر گرمی میں مصروف رہیں، قرآن مجید کا مطالعہ کریں، تلاوت کریں اور دیگر نیکی کے کام سر انجام دیں۔
– ہر وقت با وضو رہنے کی کوشش کریں اور وقت پر نمازیں ادا کریں۔
– خلوت اور جلوت ، تنہائی اور مجلس ہر وقت میں اللہ تعالی کو اپنا نگران اور نگہبان سمجھیں، یہ بندے کیلیے ہمہ قسم کی کامیابی کی چابی ہے۔
– سچے دل کے ساتھ اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر مانگیں کہ اللہ تعالی اس نفسانی بیماری سے نجات دلائے اور شہوت پر آپ کو کنٹرول دے، اور آپ کیلیے ایسے حلال وسائل مہیا فرمائے جن کی وجہ سے آپ کی شہوت پوری ہو، آپ کو حرام کاموں سے محفوظ کرے بلکہ حرام کاموں کے ذرائع اور اسباب سے بھی دور کر دے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (329) ، (103112) اور (210259) کا جواب بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کی سچی توبہ کرنے کیلیے مدد کرے، آپ کو برائیوں سے بچائے اور برائیاں آپ سے دور کر دے ، نیز آپ کو توبہ کرنے والوں میں شامل فرمائے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات