ہم ایسی نصوص سے کیا فوائد کشید کر سکتے ہیں جن میں اللہ تعالی اپنے بندوں سے کچھ پوچھتا ہے؟ مثلاً اللہ تعالی جبریل سے پوچھتا ہے کہ: بندے کس چیز کی امید رکھتے ہیں؟
اللہ تعالی بندوں کے متعلق فرشتوں سے سوال فرماتا ہے، حالانکہ اللہ کو ان سے زیادہ پتہ ہے، تو اس میں کیا حکمت ہے؟
سوال: 215287
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بخاری: (6408)، مسلم: (2689) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ : (آپ نے فرمایا اللہ تعالی کے کچھ زائد فرشتے ایسے بھی ہیں جو چلتے پھرتے رہتے ہیں اور ذکر کی مجالس تلاش کرتے ہیں تو جب وہ ایسی مجلس پا لیتے ہیں جس میں ذکر ہو تو ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں یہاں تک کہ ان سے لے کر آسمان دنیا کے درمیان کا خلا بھر جاتا ہے پس جب اہل مجلس واپس ہو جاتے ہیں تو یہ فرشتے آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں، اللہ رب العزت ان سے پوچھتا ہے -حالانکہ وہ بخوبی جانتا ہے – کہ: تم کہاں سے آئے ہو؟ تو وہ عرض کرتے ہیں کہ: ہم زمین میں تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح، تکبیر، تہلیل ، تعریف اور تجھ سے سوال کرنے میں مشغول تھے۔ اللہ فرماتا ہے وہ مجھ سے کیا سوال کر رہے تھے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ: وہ تجھ سے تیری جنت کا سوال کر رہے تھے ، اللہ فرماتا ہے: کیا انہوں نے میری جنت کو دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: نہیں اے میرے پروردگار، اللہ فرماتا ہے: اگر وہ اس کو دیکھ لیتے تو ان کی کیا کیفیت ہوتی!؟ وہ عرض کرتے ہیں: اور وہ تجھ سے پناہ بھی مانگ رہے تھے، اللہ فرماتا ہے: وہ مجھ سے کس چیز سے پناہ مانگ رہے تھے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اے رب تیری جہنم سے، تو اللہ فرماتا ہے: کیا انہوں نے میری جہنم کو دیکھا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں: نہیں ، اللہ فرماتا ہے : اگر وہ میری جہنم کو دیکھ لیتے تو ان کی کیا کیفیت ہوتی!؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ: اور وہ تجھ سے مغفرت بھی مانگ رہے تھے، تو اللہ فرماتا ہے کہ: یقیناً میں نے انہیں معاف کر دیا ہے اور انہوں نے جو مانگا میں نے انہیں عطا کر دیا اور میں نے انہیں پناہ دے دی جس سے انہوں نے پناہ مانگی، فرشتے عرض کرتے ہیں: اے رب ان میں فلاں بندہ گناہ گار ہے وہ وہاں سے گزرا تو ان کے ساتھ بیٹھ گیا ، تو اللہ فرماتا ہے: میں نے اسے بھی معاف کر دیا اور یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والے کو بھی محروم نہیں کیا جاتا۔)
اور بخاری کے الفاظ یہ بھی ہیں کہ: (پھر اللہ تعالی پوچھتا ہے: کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے ؟ راوی کہتا ہے کہ: وہ جواب دیتے ہیں : نہیں، اللہ کی قسم! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے: اگر انہوں نے مجھے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا !؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کر لیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی سب سے زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح سب سے زیادہ کرتے۔)
اور صحیح مسلم: (1348) کی ایک حدیث میں ہے کہ: عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (اللہ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن اپنے بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں کرتا اور اللہ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ سارے بندے کیا چاہتے ہیں ؟)
ایک اور روایت میں ہے کہ: (یہ میرے بندے بکھرے بالوں اور پراگندہ حالت میں دور دراز کا سفر کر کے آئے ہیں، میری رحمت سے پر امید ہیں اور میرے عذاب سے ڈرتے ہیں، حالانکہ انہوں نے مجھے ابھی تک دیکھا بھی نہیں، تو اگر مجھے دیکھ لیں گے پھر ان کی حالت کیا ہو گی؟)
اس حدیث کو عبد الرزاق : (8830) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے صحیح الجامع (1360) میں حسن قرار دیا ہے۔
اللہ تعالی فرشتوں سے اپنے بندوں کی حالت کے بارے میں جو سوال کرتا ہے ، یا اسی طرح کی جو دیگر احادیث ہیں ان میں کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں، اس میں -واللہ اعلم- درج ذیل امور شامل ہو سکتے ہیں:
- اللہ تعالی اپنی رحمت اور مغفرت کے ذریعے ان بندوں پر فضل عیاں کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالی ان کی حاجت روائی اور ان کے نیک اعمال کا بدلہ انہیں دینا چاہتا ہے، اللہ تعالی اپنے فضل سے ان کی اچھی امیدوں کو شرمندہ تعبیر کرنا چاہتا ہے؛ تا کہ بندوں کو بھی اللہ تعالی کا تعارف حاصل ہو اور اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا علم ملے، نیز لوگوں کو یہ بھی معلوم ہو کہ اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو کیا کچھ عنایت فرماتا ہے۔
جیسے کہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ وقوف عرفات کے متعلق سابقہ حدیث کی شرح میں کہتے ہیں کہ:
“اللہ تعالی فرماتا ہے: (یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟) یعنی مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا اس جگہ آنے کا کیا مقصد ہے؟ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ان بندوں پر اپنی رحمت، مغفرت اور ان کی دعائیں قبول کر کے ان پر اپنا فضل فرما دے” ختم شد
” مجموع فتاوى و رسائل عثیمین” (23/ 26)
- اللہ تعالی ان اطاعت گزاروں کی فضیلت اور مقام عیاں کرنا چاہتا ہے کہ یہ اطاعت گزار اللہ تعالی کو بن دیکھے ہی اللہ تعالی سے مانگتے ہیں، اور اس سے ڈرتے بھی ہیں۔
- اللہ تعالی فرشتوں پر عیاں کرتا ہے کہ اللہ تعالی ان کی وجہ سے فرشتوں پر فخر کیوں فرما رہا ہے، اور ان پر کیوں کرم نوازی فرما رہا ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی ان سے اقرار کرواتا ہے کہ اللہ کے بندے اللہ کی بارگاہ میں بکھرے بالوں کے ساتھ، مٹی میں آلودہ حالت میں بھی امید اور آس لگا کر آئے ہیں، نیز یہ چیز اللہ تعالی کے اس فرمان سے بھی عیاں ہوتی ہے کہ: (تو اللہ تعالی فرماتا ہے: اگر انہوں نے مجھے دیکھا ہوتا تو ان کی کیا کیفیت ہوتی؟!۔۔۔ الخ) تو فرشتے ان بندوں کے بارے میں اقرار کرتے ہیں کہ یہ بندے ایمان بالغیب کی بدولت اللہ تعالی کی اطاعت کرتے ہیں اور استقامت پر رہتے ہیں، یہ بندے ابلیس کی طرح تکبر اور عبادت الہی سے نخوت کا اظہار نہیں کرتے۔
کسی بھی بات کو منوانے کیلیے سوال و جواب کا اسلوب کافر کے متعلق بھی موجود ہے، تو مومن کے ساتھ یہ اسلوب اس لیے اپنایا جاتا ہے تا کہ مومن کا مقام اور مرتبہ عیاں ہو، اللہ تعالی کی اس پر ہونے والی نعمتوں اور فضل کا اظہار ہو، جبکہ کافر کے ساتھ سوال و جواب کا اسلوب اس لیے ہوتا ہے کہ اسے مزید ذلیل و رسوا کیا جائے، اور اس پر مزید کڑے انداز سے اتمام حجت ہو، جیسے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ روز قیامت جب کافر کا محاسبہ ہو گا تو فرمائے گا:
(۔۔۔ پھر اس کے بعد اللہ اپنے بندوں سے ملاقات کرے گا اور فرمائے گا: او فلاں! کیا میں نے تجھے عزت نہیں دی؟ اور تجھے سربراہ نہیں بنایا؟ اور تیری شادی نہیں کی؟ اور تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے؟ اور کیا میں نے تجھے سربراہی کی حالت میں آزاد نہیں چھوڑا اور تو ان سے چوتھائی حصہ [بھتہ]لیتا تھا؟! وہ عرض کرے گا : جی ہاں اے پروردگار، تو اللہ عزوجل فرمائے گا : کیا تو گمان کرتا تھا کہ تو مجھ سے ملاقات کرے گا ؟ وہ عرض کرے گا : نہیں، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا کہ: میں بھی تجھے بھلا دیتا ہوں جس طرح کہ تو نے مجھے بھلا دیا تھا)
مسلم: (2968)
- اس میں فرشتوں کے اس جواب کی طرف بھی اشارہ ہے جس میں فرشتوں نے کہا تھا: قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ انہوں نے کہا: کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق بناؤ گے جو اس میں فساد بپا کرے، اور خون بہائے، ہم ہیں نا آپ کی تسبیح ، حمد اور تقدیس بیان کرنے کیلیے۔[البقرة: 30]
اس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ بسا اوقات سائل سے سوال صادر ہوتا ہے، حالانکہ کہ سائل کو جواب کے متعلق مخاطب سے زیادہ علم ہوتا ہے؛ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ جس چیز کے متعلق سوال کیا جا رہا ہے اس کی اہمیت اور شان واضح ہو، اس کا مقام اور مرتبہ دوسروں کیلیے عیاں ہو۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالی فرشتوں سے خصوصی طور سوال کر کے فرشتوں کی ہی بات کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہے کہ فرشتوں نے کہا تھا: أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَکیا آپ زمین میں ایسی مخلوق بناؤ گے جو اس میں فساد بپا کرے، اور خون بہائے، ہم ہیں نا آپ کی تسبیح ، حمد اور تقدیس بیان کرنے کیلیے۔[البقرة: 30]؛ گویا کہ فرشتوں کو یہ کہا گیا ہے کہ: دیکھو ذرا ان بندوں نے کتنی میری تسبیح اور تقدیس بیان کی ہے، حالانکہ ان کو شہوتوں اور شیطانی وسوسوں پر اختیار بھی دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے ان کا مقابلہ کیا اور تسبیح و تقدیس میں تمہارا مشابہت کرنے لگے ہیں۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : اس حدیث سے یہ بات بھی کشید ہوتی ہے کہ بنی آدم کی جانب سے ہونے والا ذکر فرشتوں کے ذکر سے زیادہ افضل اور اعلی ہے؛ کیونکہ رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود بنی آدم ذکر الہی کرتے ہیں، نیز بنی آدم ایمان بالغیب کی وجہ سے ذکر کرتے ہیں جبکہ فرشتوں میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔” ختم شد
“فتح الباری” (11/213)
مزید کیلیے آپ : “عمدة القاري” ، از علامہ عینی: (23/ 28) اور اسی طرح ” دليل الفالحين” (7/ 247) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب