0 / 0

دنیاوی علوم کسی فرانسیسی یہودی یونیورسٹی ، یا اسی طرح کے دیگر اداروں میں حاصل کرنا

سوال: 219910

سوال: ایسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا کیا حکم ہے جس کا نام مثال کے طور پر: “کیتھولک جرمن یونیورسٹی “ہے یا “فرانسیسی یہودی یونیورسٹی “ہے، یہاں پر کیتھولک یا یہودی مذہب کی تعلیم حاصل کئے بغیر سند فراغت حاصل کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیونکہ اصل ہدف یہ ہے کہ مینجمنٹ، انجینئرنگ، کمپیوٹر سائنس، یا کسی اور غیر مذہبی ڈگری حاصل کی جائے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

مذکورہ یونیورسٹیاں اگر  صرف  دنیاوی علوم : مثلاً: فزکس، ریاضی، وغیرہ  علوم کی تعلیم، دینی علوم کے بغیر  ہی دیتی ہیں تو اس حالت میں ان یونیورسٹیوں کا حکم کفار کے ممالک میں پائی جانے والی دیگر یونیورسٹیوں  والا ہوگا، اگرچہ ان جامعات  میں دینی مواد نہیں پڑھایا جاتا، لیکن انکا ماحول شبہات اور شہوات سے بھر پور ہوتا ہے؛ اسی لئے اہل علم کفار کے ممالک میں موجود جامعات میں پڑھائی کیلئے مشروط اجازت دیتے ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:

1-یہ علوم پڑھنے کی ضرورت ہو۔

2-فتنوں سے حفاظت ہو، یعنی طالب علم  کا غالب گمان یہی ہو کہ وہ سامنے آنے والے شبہات اور شہوات کا خوش اسلوبی سے مقابلہ کر سکتا ہے۔

شیخ ابن عثیمین  رحمہ اللہ  سے پوچھا گیا:
“کیا کفار کے ممالک میں اپنے عقیدہ کو محفوظ رکھتے ہوئے جائز  کام  کی غرض سے جانا  درست ہے؟”

تو انہوں نے جواب دیا:
“بلاشبہ جو شخص بھی ان ممالک کا سفر کرتا ہے اسے اپنے دین کے بارے میں خدشات ضرور لاحق ہوتے ہیں کیونکہ وہ کفار کا ملک ہے، اور انسان جس معاشرے میں بھی رہے وہاں سے متاثر ضرور ہوتا ہے، الّا ماشاء اللہ، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے بھی فرمایا: (ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، اسکے والدین ہی اسے یہودی، عیسائی، یا پھر مجوسی بناتے ہیں)
ایک مسلمان کا دل کیسے ایسی جگہ پر رہنے کیلئے تیار ہو جاتا ہے جہاں پر گرجا گھروں کی گھنٹیاں ہی بجتی سنائیں دیں، اور اسے وہاں پر  “حي على الصلاة” کی ندا سننے کو ہی نہ ملے!!؟

ایک مؤمن کو چاہئے کہ کفار کے ممالک  سے جتنا ممکن ہوسکے دور  رہے؛ لیکن اگر پھر بھی انکے ملک  میں جانے کی ضرورت محسوس ہو، اور اسکے پاس علم اتنا ہو جن کے ذریعے وہ عیسائی مشنری کے شبہات  کی تردید کر سکے، اور دیندار اتنا ہو کہ اسکی عبادت اسے کسی بھی گمراہی اور ٹیڑھ پن سے محفوظ رکھے ، تو ان تین شرائط کی موجودگی میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بیرون ممالک سفر کنے میں کوئی حرج نہیں ہے، میں دوبارہ دہراتا ہوں:

1-بیرون ملک جانے کی ضرورت ہو، یعنی متعلقہ  تعلیم  اسلامی ملک میں نہ پائی جائے۔

2- عیسائی مشنری اور دیگر لوگوں کی جانب سے  اٹھائے جانے والے شبہات  کی تردید کیلئے اس کے پاس علم ہو۔

3-اتنا عبادت گزار ہو کہ اسکی عبادت اسے کفریہ معاشرے  میں گھل مل جانے سے روکے۔

چنانچہ جب یہ تین شرائط  پائی جائیں تو بیرون ملک سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر ان تین شرائط میں سے ایک بھی معدوم ہو تو  بیرون ملک سفر کرنا جائز نہیں ہوگا، خاص طور کچی اور نو عمر  افراد کے لئے؛ کیونکہ  انہیں اس کی وجہ سے زیادہ خطرہ لاحق ہوگا، اور ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خبردار کیا ہے کہ: جو شخص دجال کے بارے میں سنے تو وہ اس کے قریب مت جائے، اور اس سے دور رہنے کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی بتلایا کہ ایک شخص اپنے تئیں یہ سمجھے گا کہ دجال اسے دین سے دور نہیں کر سکتا، لیکن پھر بھی آخر کار دجال اسے دین سے دور کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

 اور یہ چیز حقیقت میں موجود ہے، کیونکہ جو لوگ کفار کے ممالک میں جاتے ہیں وہ واپس اُسی دین ، اور اخلاق لیکر نہیں لوٹتے، جس دین اور اخلاق کے ساتھ وہ ان ممالک میں گئے تھے، اللہ تعالی ہم سب کو عافیت سے نوازے اور محفوظ رکھے” انتہی
” فتاوى نور على الدرب ” از: ابن عثیمین

مزید فائدے کے لئے آپ سوال نمبر: (110419) اور : (117699) کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android