سوال: میری معذور سالی کی عمر 23 سال ہے، وہ ذہنی مریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ مرگی سے بھی نبرد آزما ہے، لیکن -سبحان اللہ- اللہ تعالی نے اسے عبادت کرنے کا بہت شوق دیا ہے، خصوصاً نماز کا بہت خیال کرتی ہے، بلکہ بسا اوقات میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی اسی کی طرح نماز کی پابندی کروں۔
ا
ب سوال یہ ہے کہ: اسے مرگی کی شکایت ہے، اور آج کل شکایت کچھ زیادہ ہے -اللہ تعالی اسے شفا دے- مرگی کی شکایت کی وجہ سے دوا استعمال کرنی پڑتی ہے، جبکہ وہ روزے رکھنے کی پابند بھی ہے، اب اس کی والدہ کو روزے کے دوران دوا نہ دینے کی بنا پر مرگی کی شکایت زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، اور وہ اس وجہ سے پریشان بھی ہے، انہوں نے مجھے کہا ہے کہ اس بارے میں فتوی دریافت کروں۔
تو اب اس کیلئے روزہ توڑنا جائز ہے، اور کیا میری ساس اسے دوا بھی دے سکتی ہے؟ پھر دوا دینے کے بعد اسے روزہ مکمل کروایا جا سکتا ہے؟ کیونکہ روزہ نہ رکھنے پر میری سالی ناراض ہوگی کہ اس نے روزہ نہیں رکھا۔
بیٹی کو مرگی کی شکایت ہے، کیا اسے رمضان میں دن کے وقت دوائی دے دے؟
سوال: 220868
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
پہلے سوال نمبر: (50555) ایسے امراض کے بارے میں گزر چکا ہے جن کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے، ایسے ہی مریض اپنے علاج معالجہ کیلئے رمضان میں دن کے وقت روزہ کھول سکتا ہے، اور پھر بعد میں اس دن کی قضا دے دے۔
چنانچہ اس لڑکی کو روزے کی وجہ سے ضرر کا خدشہ ہو یا مرض بڑھنے کا خدشہ ہو تو اس کی والدہ اپنی بیٹی کو رمضان میں دن کے وقت دوا دے سکتی ہے، تاہم والدہ کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کو سمجھائے اور قائل کرے کہ بیماری کی وجہ سے اس کیلئے روزہ کھولنا جائز ہے؛ اور اللہ تعالی رحمت فرماتے ہوئے مریض کا عذر قبول فرمایا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ )
ترجمہ: اور تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو [روزوں کی] گنتی دوسرے ایام میں پوری کر لے۔[البقرة:185]
یہ لڑکی بعد میں بھی رمضان کے روزوں کی قضا دے سکتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“مجھے ایک نفسیاتی مرض لاحق ہے، میں نے ڈاکٹر سے معائنہ کروایا تو انہوں نے مجھے گولیوں کی شکل میں دوا تجویز کر دی جو کہ پانچ سال تک ہر 12 گھنٹے کے بعد لینی ہے، تو اب میں رمضان کے دوران کیا کروں؟ اور اگر 12 گھنٹے کے بعد ایک گھنٹہ بھی تاخیر نہیں ہو سکتی، کیونکہ اس طرح مجھے دوبارہ مرگی کی شکایت ہو جاتی ہے”
تو انہوں نے جواب دیا:
“فرمانِ باری تعالی ہے: فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ بقدر استطاعت اللہ سے ڈرو[التغابن : 16] چنانچہ اگر دوا کھانے میں تاخیر کی وجہ سے بیماری کی شکایت ہو جاتی ہے تو روزہ توڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ روزہ [12 گھنٹے سے] لمبا ہو، جیسے کہ سوال میں 15 گھنٹے کا ذکر ہے، چنانچہ ایسے ایام میں ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کردہ دوا کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ روزہ توڑ لے اور دوا کھانے کی وجہ سے اس دن کی قضا دے، نیز بقیہ دن کھانے پینے سے رکا رہے؛ کیونکہ روزہ دوا کھانے کیلئے توڑا ہے، چنانچہ دوا کھا لے اور باقی دن قضا دے، اور اگر دوا کھانے میں تاخیر کسی مشقت کے بغیر ممکن ہو تو مغرب کے بعد دوا کھا لے ” انتہی
” فتاوى نور على الدرب ” (16/130)
مزید کیلئے سوال نمبر: (97798) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
آپ نے اس لڑکی کے بارے میں بیماری کے باوجود عبادت اور نیکی سے لگاؤ کا تذکرہ کیا ہے، اسے دیکھ کر آپ کو بھی نیکی و عبادت کی ترغیب لینی چاہیے، کیونکہ صحیح سلامت شخص کی طرف سے عبادت میں کمی معذور شخص کے برابر نہیں ہو سکتی، بلکہ صحیح سلامت شخص کی طرف سے عبادت میں کمی عیب ہے، جیسے کہ کسی نے کہا ہے:
“مجھے لوگوں میں اس سے بڑا عیب نظر نہیں آیا جو طاقت کے با وجود کوئی کام نہیں کرتے”
اللہ تعالی ہمیں اور آپکو فوری طور پر عبادت اور اطاعت کیلئے مدد فراہم کرے، اور اس لڑکی کو جلد از جلد شفا یاب فرمائے، بیشک وہ ایسا کرنے پر قادر ہے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات