کیا "سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ" تراویح کی چار یا آٹھ رکعات کے بعد کہنا صحیح ہے، کیا یہ ذکر وتروں کے بعد نہیں کہنا چاہیے؟ اور اگر ہم گھر جا کر وتر پڑھنا چاہیں تو مسجد میں یہ ذکر پڑھ سکتے ہیں؟ نیز تراویح کی ہر دو رکعت مکمل کرنے کے بعد استغفار کرنا جائز ہے؟
“سبحان الملک القدوس” وتروں کے بعد ہے تراویح کے درمیان میں نہیں ۔
سوال: 221433
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم "سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ" نماز وتر کے بعد کہا کرتے تھے، اس لیے نمازیوں کیلیے اس سنت پر عمل کرنا مسنون ہے چاہے وہ وتر مسجد میں ادا کریں یا اپنی سونے کی جگہ میں، اسی طرح چاہے وتر اکیلے ادا کریں یا با جماعت۔
تاہم قیام اللیل یا تراویح کی رکعات کے درمیان میں اس ذکر کی پابندی کرنا شرعی عمل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے بھی ثابت نہیں ہے، اس لیے مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے پر صرف سنت کو ہی معیار سمجھے اور کسی بھی قسم کی کمی بیشی سے اجتناب کرے۔
عبد الرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وتروں میں یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے: (( سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكِ الْأَعْلَى ) اسی طرح ( قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ) اور پھر ( قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ) پھر جب سلام پھیر لیتے تو تین بار فرماتے : "سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ" تیسری بار کہتے ہوئے آواز قدرے بلند فرماتے)
اس روایت کو أبوداود طیالسی نے " المسند " (1/441) میں اسی طرح ابن جعد نے اپنی " المسند " (1/86) میں اور ابن ابی شیبہ نے " المصنف " (2/93) اور امام احمد نے اپنی " مسند " (24/72) میں اور دیگر محدثین نے بھی روایت کیا ہے، اس حدیث کی بہت سی اسانید ہیں اور ان اسانید کو کئی محدثین اور محققین مثلاً: ابن ملقن، البانی، شیخ مقبل الوادعی، مسند احمد کے طبعہ رسالہ کے محققین اور دیگر اہل علم نے صحیح قرار دیا ہے۔
محدثین نے اس حدیث پر ابواب قائم کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ذکر وتروں کے بعد پڑھنا مستحب ہے، چنانچہ ابن ابی شیبہ نے اس کیلیے عنوان قائم کیا: "آدمی وتروں کے بعد کیا دعا پڑھے"
اسی طرح ابو داود رحمہ اللہ کہتے ہیں: "باب ہے وتروں کے بعد کی دعا کے متعلق"
امام نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "باب ہے وتروں سے فراغت کے بعد تسبیح کے متعلق"
اور ابن حبان نے اپنی صحیح ابن حبان (6/206) میں عنوان قائم کیا ہے کہ: "باب ہے اس ذکر کے بیان میں جسے وتروں کے بعد پڑھنا مستحب ہے"
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وتروں کے بعد تین مرتبہ "سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ" کہنا مستحب ہے" انتہی
" المجموع شرح المهذب " (4/ 16)، اور اسی طرح دیکھیں: " تحفة المحتاج " (2/227)
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"وتروں کے بعد تین بار "سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ" کہنا مستحب ہے اور تیسری بار کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کرے" انتہی
" المغنی " (2/ 122)
یہی بات دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی کے دوسرے ایڈیشن (6/60) میں آئی ہے:
"جب وتروں کا سلام پھیر لے تو "سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ" تین بار کہے۔" انتہی
چنانچہ ہمیں کوئی ایسا اہل علم نہیں ملا جنہوں نے "سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ" کو وتروں کی نماز کے علاوہ کہنے کو مستحب قرار دیا ہو۔
ہماری ویب سائٹ پر پہلے ہی وضاحت گزر چکی ہے کہ بعض مساجد میں تراویح کی رکعات کے دوران اجتماعی اذکار عادت بنا لی گئی ہے، یہ اذکار استغفار یا تسبیح وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں ، حالانکہ کسی بھی ذکر کو اجتماعی طور پر بغیر کسی دلیل کے کرنا انسان کو بدعات کی جانب لے جاتا ہے اور سنت سے دور کر دیتا ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ :
تراویح کی رکعات کے دوران "سُبْحَانَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ" کہنا نمازیوں کیلیے شرعی عمل نہیں ہے، اسے صرف وتروں کے بعد کہا جائے گا، اسی طرح اجتماعی استغفار بھی تراویح کی رکعات کے درمیان کرنا جائز نہیں ہے، اگرچہ انفرادی استغفار اور تسبیح کرنا جائز ہے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (37753) ، (50718) ، (108506) ، (121270) اور (190881) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات