سوال: ایک آدمی نے اپنے روشن مستقبل کی ضمانت کے طور پر بہت سی زمین رکھی ہوئی ہے، کہ مستقبل میں مکان کی تعمیر یا بچوں کی تعلیم کیلئے یا کسی بھی ضرورت کی صورت میں زمین فروخت کر کے اپنی ضروریات پوری کرے، اور وفات کے بعد باقی ماندہ زمین اس کی اولاد میں تقسیم ہو جائے گی، اگر ہم فرض کریں کہ زمین کی قیمت ایک ملین ڈالر ہے، اور خرچے وغیرہ نکال کر اس کی صافی آمدن 3000 ڈالر ہے، تو کیا اس پر زکاۃ لاگو ہوگی؟ اور اگر لاگو ہو گی تو سالانہ زکاۃ کیسے ادا کی جائے گی؟
کیا ایسی زمین پر زکاۃ ہوگی جسے مکان کیلئے یا اپنے بچوں کی تعلیم کیلئے یا کسی اور مقصد کیلئے رکھا ہوا ہے؟
سوال: 221437
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
زمین پر زکاۃ اسی وقت ہوتی ہے جب تجارتی غرض سے لی جائے، یعنی مالک نے زمین خریدی ہی اس نیت سے ہے کہ اسے فروخت کر کے نفع کمائے گا۔
لیکن ایسی زمین جس کا مالک اس پر ذاتی رہائش کیلئے مکان بنانا چاہتا ہے، یا مستقبل میں اپنے بچوں کیلئے رکھنا چاہتا ہے، یا اس میں اپنی رقم محفوظ کرنا چاہتا ہے کہ جب بھی اسے کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیچ کر اپنی ضرورت پوری کر لے، تو اس میں زکاۃ نہیں ہے، اس بات کا بیان پہلے فتوی نمبر: (34802) میں گزر چکا ہے۔
چنانچہ : مذکورہ زمین میں آپ پر زکاۃ نہیں ہے، کیونکہ یہاں مقصد مال محفوظ کرنا ہے، نفع کمانا مقصود نہیں ہے۔
دوم:
لیکن صافی 3000 ڈالر سالانہ آمدن نصاب سے بھی زیادہ ہے، اس لیے اس پر زکاۃ لاگو ہوگی بشرطیکہ اس پر ایک مکمل سال گزر جائے، اور اگر یہ آمدن ہر ماہ موصول ہونے والی تنخواہ کی شکل میں ہے تو ہر ماہ محفوظ ہونے والی رقم کیلئے الگ سے سالِ زکاۃ کا حساب رکھنا نہایت ہی مشکل کام ہے۔
چنانچہ اس کا حل یہ ہے کہ: آپ اس وقت کو دیکھیں جس میں آپ کے پاس مال نصاب کو پہنچ گیا تھا اور وہ 595 گرام چاندی ہے، چنانچہ آئندہ سال جب وہی دن آ جائیں تو آپ اپنی آخری تنخواہ -جس پر ابھی چند دن ہی گزرے ہیں -سمیت اپنے پاس موجود مکمل رقم کا حساب لگا کر 2.5٪ کے اعتبار سے زکاۃ ادا کر دیں، اس طرح سے جس مال پر ابھی سال نہیں گزرا اس کی زکاۃ آپ پیشگی ادا کر دیں گے، اور ایسا کرنا ضرورت کی بنا پر جائز ہے۔
پہلے اس بات کا بیان فتوی نمبر: (26113) میں گزر چکا ہے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات