اس سال رمضان میں 27 ویں رات جمعہ کی رات کو آ رہی ہے، کیونکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اگر جمعہ کی رات کو آخری عشرے کی کوئی طاق رات آئے تو عین ممکن ہے کہ یہی رات لیلۃ القدر ہو" تو کیا یہ صحیح ہے؟
اگر جمعہ کی رات طاق رات ہو تو کیا وہی لیلۃ القدر ہو گی؟
سوال: 222685
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منسوب قول ہمیں نہیں ملا، البتہ اسے ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے ابن ہبیرہ رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ: "اگر جمعہ کی رات آخری عشرے کی کوئی طاق رات بنے تو اس رات کے لیلۃ القدر ہونے کی زیادہ امید ہے" انتہی
" لطائف المعارف لابن رجب " (ص/203)
ممکن ہے کہ انہوں نے اس بنیاد پر یہ بات کی ہو کہ جمعہ کی رات پورے ہفتہ میں سب سے افضل ترین رات ہے، چنانچہ اگر رمضان میں کوئی طاق رات بھی اسی رات کو آئے تو اس کے لیلۃ القدر ہونے کا عین امکان ہے، تاہم ہمیں اس بات کی تائید میں احادیث نبویہ اور آثارِ صحابہ نہیں ملے۔
احادیث میں یہ بات ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرے میں تاریخیں بدل کر آتی ہے، اور طاق راتوں میں لیلۃ القدر آنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے، اور طاق راتوں میں سے 27 ویں رات کے لیلۃ القدر ہونے کا زیادہ امکان ہے، تاہم اس کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
چنانچہ مسلمان کو چاہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتدا کرتے ہوئے پورے آخری عشرے میں لیلۃ القدر کی تلاش کیلیے بھر پور کوشش کرے ۔
شیخ سلیمان الماجد حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں شریعت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ملی کہ جب جمعہ کی رات طاق رات ہو تو وہی لیلۃ القدر ہو گی، لہذا اس بارے میں یقینی طور پر کہنا درست نہیں ، چنانچہ شرعی عمل یہ ہو گا کہ پورے عشرے میں لیلۃ القدر تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، لہذا پورے عشرے میں جد و جہد کرنے والا یقینی طور پر لیلۃ القدر پا لے گا۔ واللہ اعلم" انتہی
http://www.salmajed.com/fatwa/findfatawa.php?arno=9880
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"لیلۃ القدر صرف رمضان میں ہے، اور رمضان میں سے بھی آخری عشرے میں ہے، اور آخری عشرے میں سے طاق راتوں میں ہے، ان طاق راتوں میں سے کسی متعین رات میں نہیں ہے، لیلۃ القدر کے بارے میں وارد شدہ تمام احادیث کا خلاصہ یہی ہے" انتہی
" فتح الباری" (4/260)
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا موقف کہ :وہ قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ یہ 27 ویں رات ہی ہے، یہ لیلۃ القدر کے بارے میں متعدد آرا میں سے ایک ہے، اکثر علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ رمضان کی یہ رات معین نہیں ہے بلکہ مبہم ہے، تاہم زیادہ امید یہی ہے کہ یہ طاق راتوں میں ہے، اور طاق راتوں میں سے بھی 27، 25، 23 اور 21 ویں رات کے لیلۃ القدر ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
اکثر علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ یہ ایک ہی رات ہے جو کہ بدلتی نہیں ہے۔
لیکن محقق علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہ رات ہر سال بدل کر آتی ہے، چنانچہ کسی سال میں 27 ویں رات لیلۃ القدر ہوتی ہے تو کسی سال میں 23 ویں رات، اور کسی سال 21 ویں رات ہوتی ہے،اور کسی سال کوئی اور رات ہوتی ہے یہی موقف زیادہ بہتر ہے، اور اس طرح لیلۃ القدر کے بارے میں مختلف احادیث کے مابین تطبیق بھی ہو جاتی ہے" انتہی
" شرح صحیح مسلم " از نووی: (6/43)
مزید فائدے کیلیے سوال نمبر: (50693) کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات