کتاب و سنت میں ایسے کون سے دلائل ہیں جن میں یہ ہے کہ ظہر اور عصر کی نمازیں سری پڑھی جائیں جبکہ فجر، مغرب اور عشا کی نمازیں جہری پڑھی جائیں؟
نماز پنجگانہ سری اور جہری پڑھنے کے دلائل
سوال: 224152
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سب سے پہلے تو ہم آپ کی قدر کرتے ہیں کہ آپ اتنی کم عمر میں بھی کتاب و سنت کے دلائل جاننے کے لئے کوشش کر رہے ہیں، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔
اللہ تعالی نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع اور اقتدا کرنے کا حکم دیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
ترجمہ: یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول عمدہ نمونہ ہیں ، اس کے لیے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا ڈھیروں ذکر کرتا ہے۔ [الأحزاب: 21]
اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (تم ایسے ہی نماز ادا کرو جیسے تم مجھے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہو)، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نماز فجر مکمل، جبکہ مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعتوں میں جہری قراءت کرتے تھے، جبکہ ان کے علاوہ رکعات میں آہستہ آواز میں تلاوت کرتے تھے۔
دوران نماز جہری یعنی بلند آواز میں تلاوت کرنے کے دلائل درج ذیل ہیں:
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ( میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز مغرب میں سورت طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا) اس حدیث کو امام بخاری: (735) اور مسلم : (463)نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عشا کی نماز میں سورت التین پڑھتے ہوئے سنا، میں نے آپ سے خوبصورت آواز کسی کی نہیں سنی) اس حدیث کو امام بخاری: (733) اور مسلم : (464)نے روایت کیا ہے۔
بخاری اور مسلم میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے جس میں ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تلاوت جنوں نے سنی تو اس میں یہ بھی ہے کہ: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت اپنے صحابہ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے، تو جب جنوں نے قرآن سنا تو کان لگا کر غور سے سننے لگے) اس حدیث کو امام بخاری: (739) اور مسلم : (449)نے روایت کیا ہے۔
تو ان روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم ان نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت کرتے تھے، اور آپ کے ساتھ شریک افراد آپ کی تلاوت سنتے بھی تھے۔
جبکہ ظہر اور عصر کی نماز میں تلاوت آہستہ آواز میں کرنے کے دلائل درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری: (713) میں خباب رضی اللہ عنہ ایک سائل کے سوال: "کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر اور عصر کی نماز میں تلاوت کرتے تھے؟" کے جواب میں کہتے ہیں: "ہاں تلاوت کرتے تھے" اس پر ان کے شاگردوں نے کہا: "آپ کو اس کا کیسے علم ہوتا تھا؟" تو آپ نے کہا: " آپ کی ڈاڑھی کی حرکت سے "
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہری نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت اور سری نمازوں میں آہستہ آواز میں تلاوت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے ثابت ہے اور مسلمانوں کا ان احکامات پر اجماع بھی ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "ہر نماز میں تلاوت ضرورت کی جاتی ہے، تاہم جس نماز میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تلاوت سنائی ہم تمہیں بھی اس نماز میں سناتے ہیں، اور جس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آہستہ تلاوت کی تو ہم بھی آہستہ تلاوت کرتے ہیں" اس حدیث کو امام بخاری: (738) اور مسلم : (396)نے روایت کیا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" نماز فجر ، مغرب، عشا اور جمعہ کی ابتدائی دونوں رکعات میں با آواز بلند تلاوت، جبکہ ظہر، عصر، مغرب کی تیسری، اور عشا کی تیسری اور چوتھی رکعت میں آہستہ تلاوت کرنا سنت ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے نیز اس پر صحیح احادیث بھی وافر مقدار میں موجود ہیں" ختم شد
" المجموع شرح المهذب " (3/389)
اسی طرح ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ظہر اور عصر کی پوری نماز میں قراءت آہستہ آواز میں ہو گی، جبکہ مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعات جبکہ فجر کی پوری نماز میں قراءت بلند آواز سے کی جائے گی۔۔۔؛ اس میں بنیادی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ہے، نیز یہ عمل سلف صالحین سے نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ تاہم اگر کوئی سری نماز میں جہری تلاوت کر لے یا جہری نماز میں سری تلاوت کر لے تو اس نے سنت کو ترک کیا، البتہ اس کی نماز صحیح ہو گی" ختم شد
" المغنی " (2/270)
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (13340)، (65877) اور اسی طرح : (67672) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات