کیا "النور" اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں شامل ہے؟ نیز "عبد النور" نام رکھنے کا کیا حکم ہے؟
کیا “النور” اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں شامل ہے؟
سوال: 226255
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اہل علم کا "النور" کے اسمائے حسنی میں شامل ہونے کے متعلق اختلاف ہے کہ کیا یہ اسمائے حسنی میں شامل ہے؟
پہلا موقف: اسمائے حسنی میں شامل ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: اَللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔[النور: 35]
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اللہ تعالی نے اپنا نام نور رکھا ہے، اللہ تعالی نے اپنی کتاب کو بھی نور بنایا، اپنے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی نور بنایا، اللہ کا دین بھی نور ہے، اور اپنی مخلوق سے پردہ بھی نور کے ذریعے رکھا ہوا ہے، پھر اپنے نیک ولیوں کا گھر بھی چمکنے دمکنے والا بنایا ہے۔ " ختم شد
"اجتماع الجيوش الإسلامية" (2/ 44)
اسی طرح قصیدہ نونیہ میں آپ کہتے ہیں:
{ والنور من أسمائه أيضا ومن ** أوصافه سبحان ذي البرهانِ }
نور، اللہ سبحانہ و تعالی کے ناموں میں اور اوصاف میں شامل ہے۔
اسی طرح ابن خزیمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"النور، اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں شامل ہے۔" جیسے کہ پہلے سوال نمبر: (149122) کے جواب میں گزر چکا ہے۔
دوسرا موقف:
یہ اسمائے حسنی میں شامل نہیں ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
کیا کسی کو عبد النور کہہ سکتے ہیں؟
تو انہوں نے کہا:
"اللہ تعالی کے اسمائے حسنی توقیفی ہیں، اور یہ بات پایا ثبوت کو نہیں پہنچتی کہ النور اللہ تعالی کا نام ہے، اس لیے عبد النور کہنا درست نہیں ہے۔" ختم شد
الشیخ عبد العزیز بن باز ، الشیخ عبد العزیز آل الشیخ ، الشیخ عبد الله الغدیان ، الشیخ صالح الفوزان ، الشیخ بکر ابو زید ۔
ماخوذ از: "فتاوى اللجنة الدائمة" -دوسرا ایڈیشن- (10/ 510)
اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ:
"قرآن کریم میں لفظ نور مضاف ہو کر آیا ہے، اس لیے عبد النور نام نہیں رکھا جا سکتا، اور اللہ تعالی کا کوئی نام "النور" نہیں ہے۔" ختم شد
الشیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا "النور" اللہ تعالی کا اسم گرامی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
"مجھے نہیں یاد کہ کہیں بھی صحیح احادیث میں اللہ تعالی کا اسم "النور" آیا ہو، ہاں صرف ایک روایت میں ہے جسے محدثین ضعیف قرار دیتے ہیں اسی حدیث میں اللہ تعالی کے اسمائے حسنی تسلسل کے ساتھ ذکر کیے گئے ہیں۔
اور محسوس ہوتا ہے کہ ابن قیم رحمہ اللہ "النور" نام ثابت قرار دیتے ہیں، لیکن انہوں نے اس کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی؛ کیونکہ قرآن کریم میں جو آیت ہے کہ: اَللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔[النور: 35] تو اس آیت کی روشنی میں یہ کہا جائے کہ اللہ کا نام: نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ تو ٹھیک ہے، لیکن صرف النور نہیں۔" ختم شد
ماخوذ از ملتقی اہل الحدیث
الشیخ عبد العزیز الراجحی حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"النور، اللہ تعالی کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اس کی کیفیت ویسے ہی ہے جیسے اللہ تعالی کے جلال اور عظمت کے لائق ہے، لیکن یہ صفت اللہ کی جانب مضاف ہو کر آئی ہے، مستقل نہیں ہے، اس لیے یہ نہیں کہا جائے گا کہ مطلق طور پر نور اللہ تعالی کی صفت ہے؛ کیونکہ مطلق صفت لفظ نور کے لفظ کے ساتھ کہیں نہیں ہے۔" ختم شد
اسی طرح الشیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ نے حرام اور ممنوعہ ناموں میں عبد النور کا ذکر بھی کیا ہے؛ کیونکہ اس میں غیر اللہ کے ساتھ لفظ عبد لگایا جا رہا ہے۔ ختم شد
" معجم المناهي اللفظية " (ص282)
الشیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مجھے نہیں معلوم کہ النور کا لفظ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی کے طور پر کسی صحیح حدیث میں آیا ہو۔" ختم شد
https://www.youtube.com/watch?v=IPlrzAU1_90&feature=youtu.be
اس بنا پر: عبد النور نام رکھنا مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ کم از کم یہ مشتبہ امور میں شامل ہوتا ہے، اور مشتبہ امور کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (مشکوک کام کو چھوڑ دو اور اسے کرو جو مشکوک نہیں ہے۔)
لیکن اگر کسی نے پہلے سے یہ نام رکھا ہوا ہے تو اب ہمیں ایسی کوئی وجہ نظر نہیں آتی جو نام تبدیل کرنے کی موجب ہو؛ کیونکہ اس نام کو رکھنے والے کا مقصد اللہ تعالی کے لیے اپنی عبدیت ظاہر کرنا ہے، اور "النور" نام کو اللہ تعالی کے اسمائے حسنی میں شامل کرنے کی بڑی قوی وجہ بھی موجود ہے اور اس بات کے متعدد اہل علم قائل بھی ہیں۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب