کہا جاتا ہے کہ جنت میں باب الریان سے صرف روزے دار ہی داخل ہو ں گے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکتا؛ کیونکہ میں بچپن سے ہی ذیابیطس کا مریض ہوں اور اسی وجہ سے میں کسی بھی رمضان میں روزے نہیں رکھ سکا؟
جو شخص ساری زندگی بیماری کی وجہ سے کسی بھی رمضان میں روزے نہ رکھ سکے کیا وہ جنت کے باب ریان سے جنت میں داخلے سے روک دیا جائے گا؟
سوال: 231820
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اگر کوئی شخص کسی بھی نیکی کے کام کے لیے پختہ ارادہ رکھتا ہو لیکن بیماری، عذر یا کسی بھی شرعی وجوہات کی بنا پر نیکی کا کام نہ کر سکے تو اسے بھی نیک عمل کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے۔
بخاری: (4423) میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: “ہم جنگ تبوک سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ لوٹے آ رہے تھے تو مدینہ کے قریب پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مدینہ میں رہ کر بھی ہر جگہ تمہارے ساتھ رہے) لوگوں نے تعجب سے عرض کیا : “اللہ کے رسول! مدینہ میں رہ کر ؟” فرمایا (ہاں ! وہ عذر کی وجہ سے رہ گئے تھے)”
اسی طرح سنن ابن ماجہ: (1344) میں ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص بستر پر لیٹتے ہوئے نیت کرے کہ رات کو قیام کرے گا، لیکن اس پر نیند غالب آ جاتی ہے اور وہ صبح تک اٹھ نہیں پاتا تو اس کے لیے وہ کچھ لکھ دیا جاتا ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے، نیز اسے آنے والی نیند اللہ تعالی کی جانب سے صدقہ ہوتی ہے) اس حدیث کو البانی نے صحیح ابن ماجہ میں صحیح قرار دیا ہے۔
ایسے ہی ترمذی (2325) میں ایک روایت ہے جسے امام ترمذی نے بھی صحیح کہا ہے، نیز یہ روایت مسند احمد: (18031) میں بھی موجود ہے کہ: ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : (یہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے : ایک بندہ وہ ہے جسے اللہ تبارک و تعالی نے مال اور علم کی دولت دی، وہ اپنے رب سے مال کمانے اور پھر اسے خرچ کرنے میں ڈرتا ہے اور اس مال کے ذریعے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں سے اللہ کے حقوق کی ادائیگی کا بھی خیال رکھتا ہے ایسے بندے کا درجہ سب سے بہتر ہے۔ اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے علم دیا، لیکن مال و دولت سے اسے محروم رکھا پھر بھی اس کی نیت سچی ہے اور وہ کہتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس شخص کی طرح عمل کرتا لہذا اسے اس کی سچی نیت کی وجہ سے پہلے شخص کی طرح اجر برابر ملے گا، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اسے علم سے محروم رکھا وہ اپنے مال میں غلط روش اختیار کرتا ہے، اس مال کے کمانے اور خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے، نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ کے حق کا خیال رکھتا ہے تو ایسے شخص کا درجہ سب درجوں سے بدتر ہے، اور ایک وہ بندہ ہے جسے اللہ نے مال و دولت اور علم دونوں سے محروم رکھا، وہ کہتا ہے کاش میرے پاس مال ہوتا تو فلاں کی طرح میں بھی عمل کرتا [یعنی : برے کاموں میں مال خرچ کرتا] تو اسے اپنی نیت کے مطابق گناہ ملے گا اور دونوں کا عذاب اور بار گناہ برابر ہو گا )
اس روایت کو البانی نے بھی صحیح سنن ترمذی میں صحیح کہا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جو شخص کسی خیر کے کام کی نیت کرے اور پھر اپنی استطاعت کے مطابق اسے کرنے کی کوشش بھی کرے لیکن مکمل نہ کر پائے تو اسے مکمل عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا” ختم شد
“مجموع الفتاوى” (22 /243)
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
“تو یہ لوگ جس کام میں مگن تھے اسے پورا کرنا چاہتے تھے، لیکن پورا کر نہیں پائے تو ان کی سچی نیت کے باعث ان کا درجہ مکمل کام کرنے والوں کے برابر قرار دیا گیا” ختم شد
“مجموع الفتاوى” (10 /441)
آگے چل کر مزید کہتے ہیں کہ:
“ایک شخص کسی بھی کام کو کرنے کا پختہ ارادہ رکھے اور پھر مقدور بھر کوشش بھی کرے تو وہ مکمل کام کرنے والے کے درجے پر ہوتا ہے۔” ختم شد
” مجموع الفتاوى ” (10/ 731)
ان نصوص میں عمل کی نیت کرنے والے اور اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے والے کے مابین جو برابری اور مساوات ذکر کی گئی ہے وہ صرف بنیادی اجر و ثواب کے حوالے سے ہے، اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ نیت کرنے والے کو عمل کرنے والے جیسا اجر ہر اعتبار سے ملے۔
اس بارے میں ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (کہ وہ دونوں اجر میں برابر ہیں) یہ برابری عمل کے بنیادی اجر میں ہے، اضافی اجر جو ملتا ہے وہ اسے نہیں ملے گا؛ کیونکہ اضافی اجر اسی کو ملتا ہے جو عمل کر لے چنانچہ جو شخص نیت تو کر لے لیکن اس پر عمل نہ کر پائے اسے اضافی اجر نہیں ملتا” ختم شد
” جامع العلوم والحكم ” (2/321)
صحیح مسلم: (1909) میں سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص اللہ تعالی سے سچے دل کے ساتھ شہادت کی دعا مانگے تو اللہ تعالی اسے شہیدوں کے درجات تک پہنچا دیتا ہے، چاہے وہ اپنے بستر پر ہی فوت ہو)
اس حدیث کے بارے میں صاحب عون المعبود: (4/268) کہتے ہیں کہ:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان : (اللہ تعالی اسے شہیدوں کے درجات تک پہنچا دیتا ہے) یہ اس کی سچی نیت اور دعا کا عوض ہے۔ (چاہے وہ اپنے بستر پر ہی فوت ہو) کیونکہ حقیقی شہید اور دعا کرنے والا شخص دونوں ہی ایک چیز میں برابر تھے کہ دونوں کی نیت سچی تھی، فرق یہ تھا کہ حقیقی شہید عملی طور پر آگے نکل گیا اور اس لیے اس شخص کو شہادت کا صرف بنیادی اجر دے دیا گیا” ختم شد
مناوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“(چاہے وہ اپنے بستر پر ہی فوت ہو)کیونکہ وہ دونوں ہی خیر کا پختہ ارادہ رکھتے تھے، نیز انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق عملی اقدامات بھی کئے اس لیے بنیادی اجر میں یہ سب برابر ہوئے، اب بنیادی اجر میں برابر ہونے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ دونوں کو ملنے والا اجر ہر اعتبار سے یکساں ہو گا؛ کیونکہ نیت اور ساتھ میں عملی اقدامات کا اجر صرف نیت کے اجر سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، لہذا اگر کوئی شخص حج کی نیت رکھتا ہے لیکن اس کے پاس مال نہیں ہے جس سے وہ حج کر سکے، تو اسے حج کا ثواب مل جائے گا، تاہم اس شخص سے کم ہو گا جس نے عملی طور پر حج کیا ہے۔ اس لیے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو شخص میدان کارزار میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے اس کے اجر و ثواب کی نوعیت اور تفصیلات اس شخص کے اجر و ثواب سے کہیں زیادہ ہوں گی جو شہادت کا متمنی تو تھا لیکن اپنے بستر پر فوت ہوا، اگرچہ بنیادی طور پر دونوں ہی شہید کے درجے میں ہوں گے، چنانچہ اگر یہ دونوں اجر میں برابر ہیں لیکن پھر بھی جس نے عملی اقدامات کئے ہیں اس کے عملی اقدامات کا یہ تقاضا ہے کہ اسے زیادہ اجر و ثواب ملے، اسے اللہ تعالی کا خصوصی قرب حاصل ہو، تو یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہے عنایت فرماتا ہے” ختم شد
” فيض القدير ” (6/186)
دوم:
بخاری: (1896) اور مسلم: (1152) میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: ( جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں قیامت کے دن اس دروازے سے روزے دار ہی داخل ہوں گے کوئی دوسرا داخل نہ ہو گا، کہا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں ؟ وہ لوگ کھڑے ہوں گے اس دروازہ سے ان کے سوا کوئی داخل نہ ہو سکے گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا اور اس میں کوئی داخل نہ ہو گا)۔
تو اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باب ریان روزے داروں کے ساتھ خاص ہے؛ کیونکہ انہوں نے رمضان میں دن کے وقت پیاس پر صبر کیا، حتی کہ گرمی کے دنوں میں بھی پیاس برداشت کی۔
ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس دروازے کو باب ریان [بہت زیادہ سیراب کرنے والا]اس لیے کہا گیا ہے کہ روزے داروں کے لیے یہی مناسب تھا؛ کیونکہ پیاسے روزے دار کا بدلہ یہی بنتا ہے کہ اسے سیراب کیا جائے، اس لیے سیرابی کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے ریان کہا گیا” ختم شد
“كشف المشكل” (3/ 391)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ریان کا معنی ہے سیراب کرنے والا؛ چونکہ روزے دار روزے کی حالت میں پیاس برداشت کرتے ہیں خصوصاً گرمیوں کے گرم اور لمبے دنوں میں بھی تو اس لیے انہیں بدلے کے طور پر اس دروازے سے گزارا جائے گا جو روزے داروں کے ساتھ خاص ہے، اسی لیے اسے ریان بھی کہا گیا ہے۔” ختم شد
“شرح رياض الصالحين” (5/ 271)
چنانچہ اگر کوئی شخص دائمی مرض میں مبتلا ہو اور اپنی بیماری کی وجہ سے روزے نہ رکھ پائے بلکہ اپنی طرف سے کھانا کھلائے ، تو اللہ تعالی کو اس کے بارے میں علم ہے کہ اگر وہ صحیح سلامت ہوتا تو ضرور روزے رکھتا، تو اس کے لیے روزے دار کا بنیادی اجر ضرور ہو گا، روزے داروں کو ملنے والے اضافی اجر و ثواب میں سے اسے کچھ نہیں ملے گا۔
اور ظاہر یہی ہوتا ہے کہ حدیث میں مذکور وعدہ شدہ اجر کہ روزے دار باب ریان سے داخل ہوں گے ، یہ اضافی اجر و ثواب میں سے ہے، بنیادی نہیں ہے، نیز یہ بھی ہے کہ باب ریان سے داخلہ انہی لوگوں کا ہو گا جنہوں نے عملی طور پر روزے رکھے ہوں گے، وہ شخص داخل نہیں ہو گا جو روزے کی نیت کرے لیکن مجبوری کی بنا پر روزہ نہ رکھ سکے۔
بلکہ راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ فضیلت ہر روزے دار کو بھی حاصل نہیں ہو گی، بلکہ یہ فضیلت اسے حاصل ہو گی جو عام طور پر روزے رکھنے کا عادی تھا، یہاں تک کہ نفل روزے بھی بہت زیادہ رکھتا تھا، محض فرض روزوں پر اکتفا کرنے والا اس میں شامل نہیں ہو گا۔
علامہ زرقانی رحمہ اللہ موطا کی شرح (3/77) میں لکھتے ہیں کہ: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمان: (مجھے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو) تو یہاں علمائے کرام کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کی جانب سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جانب سے کسی چیز کی امید لگائی جائے تو وہ حقیقی طور پر واقع ہو تا ہے، اسی چیز کی صراحت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں موجود ہے جو کہ ابن حبان میں ہے، اس کے الفاظ کچھ یوں ہیں: (تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ہاں ، ابو بکر وہ تم ہی ہو) نیز اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ وہ بہت ہی کم لوگ ہوں گے جنہیں ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا، تو اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ نفل عبادات میں بہت زیادہ مشغول رہنے والے ہی ان تمام دروازوں سے بلائے جائیں گے؛ کیونکہ صرف فرائض پورے کرنے والے اگر معیار ہوں تو ان کی تعداد تو بہت زیادہ بڑھ جائے گی ؛ جبکہ نفل عبادات ساری کی ساری کسی ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو ان کی تعداد بہت کم ہو گی، اور اسی کی طرف حدیث میں اشارہ ہے” ختم شد
اسی طرح ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس میں یہ بھی ہے کہ: عام طور پر ہر قسم کی نیکی کے دروازے ہر انسان کے لیے نہیں کھولے جاتے، اگر کسی مخصوص نیکی کے دروازے کسی کے لیے کھلیں تو دیگر دروازوں سے محروم ہو جاتا ہے، تو اکثر یہی ہوتا ہے کہ ہر قسم کی نیکی کرنے والے افراد بہت ہی کم ہوتے ہیں، اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہی قلیل افراد میں شامل ہیں” ختم شد
“التمهيد” (7/185)
اگر کوئی معذور شخص اس دروازے سے داخل نہیں ہو پاتا تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے بشرطیکہ اپنی زندگی میں اللہ سے ڈرے اور حسن کارکردگی کا حامل ہو؛ کیونکہ جنت کے بہت سے دروازے ہیں، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَالْمَلائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِمْ مِنْ كُلِّ بَابٍ )
ترجمہ: وہ جو ہمیشہ قائم رہنے والے باغ ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے اور ان کے ساتھ ان کے آباء و اجداد، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں گے وہ بھی داخل ہوں گے اور فرشتے (جنت کے) ہر دروازے سے ان کے استقبال کو آئیں گے ۔[الرعد:23]
اسی طرح بخاری: (1897) اور مسلم: (2027) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (جس نے اللہ کی راہ میں جوڑا (یعنی دو چیزیں) خرچ کیں، وہ جنت کے دروازوں سے پکارا جائے گا، اے اللہ کے بندے یہ دروازہ اچھا ہے۔ جو شخص نمازی ہو گا وہ نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا اور جو شخص مجاہد ہو گا وہ جہاد کے دروازے سے پکارا جائے گا اور جو شخص صدقہ والوں سے ہو گا وہ صدقہ کے دروازے سے پکارا جائے گا)
لہذا اگر کسی شخص سے کوئی نیک عمل کسی عذر کی بنا پر رہ گیا تو اس کے لیے دیگر نیک اعمال کی گنجائش موجود ہے، لہذا اگر کوئی شخص باب ریان سے داخل نہیں ہو سکتا تو وہ کوشش کرے کہ دیگر جنت کے دروازوں میں سے داخل ہونے والا بن جائے جیسے کہ باب الصلاۃ، باب جہاد، باب حج، باب صدقہ اور اسی طرح کے دیگر جنت کے دروازوں میں سے داخل ہونے کی کوشش کرے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب