اگر کوئی شخص اپنے والدین کے ساتھ بد سلوکی کرتا رہا ہوں، اور پھر ان کے فوت ہو جانے کے بعد اسے اپنی غلطی کا احساس ہو تو اپنی اس غلطی کی معافی کے لیے کیا کرے؟
لڑکے نے اپنے والدین سے بد تمیزی کی اب دونوں کی وفات کے بعد پشیمان ہے، تو اب وہ کیا کر سکتا ہے؟
سوال: 232245
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔
جیسے کہ سیدنا عبد الرحمن بن ابو بکرہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "(کیا میں تمہیں کبیرہ ترین گناہ نہ بتلاؤں؟) ہم نے کہا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور والدین کی نافرمانی کرنا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے ، پھر اچانک سیدھے ہو کر بیٹھے اور فرمایا: (توجہ کریں! جھوٹی بات کرنا، اور جھوٹی گواہی دینا۔ توجہ کریں! جھوٹی بات کرنا، اور جھوٹی گواہی دینا) آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہی بات بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ مجھے محسوس ہونے لگا کہ آپ خاموش نہیں ہوں گے" اس حدیث کو امام بخاری: (5976) اور مسلم : (87) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانا، عقوق الوالدین، کسی کو قتل کرنا، اور جھوٹی قسم اٹھانا۔) بخاری: (6675)
عقوق الوالدین کا مطلب یہ ہے کہ: اولاد سے کسی شرعی وجہ کے بغیر ایسے کام اور باتیں سر زد ہوں جو والدین کے لیے اذیت کا باعث بنیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عقوق سے مراد یہ ہے کہ: بچے سے ایسا کام یا بات ہو جائے جس سے والد کو تکلیف پہنچے۔ اگر شرک یا گناہ کا کام نہ کرنے سے والد کو تکلیف ہو تو یہ عقوق میں شامل نہیں ہو گا، اسی طرح والد کسی چیز کو ذاتی انا کا مسئلہ بنا لے تو وہ عقوق میں نہیں آئے گا۔" ختم شد
" فتح الباری " (10 / 406)
دوم:
اسلام کی یہ بہت ہی اہم بات ہے ، اور یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہونی چاہیے اسی کے مطابق مسلمان عمل بھی کرے کہ کوئی کتنا بڑا گناہ کیوں نہ ہو اس سے توبہ ممکن ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
ترجمہ: کہہ دیجیے! اپنی جانوں پر حد سے تجاوز کرنے والے اے میرے بندو! تم سب اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو؛ یقیناً اللہ تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہے، یقیناً وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[الزمر: 53]
اس لیے والدین کے ساتھ بد سلوکی کرنے والے پر لازمی ہے کہ فوری طور پر توبہ کرے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے تائب کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
ترجمہ: وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اور برائیوں سے درگزر فرماتا ہے، اور تمہارے سارے اعمال کو جانتا ہے۔[الشوری: 25]
سچی توبہ کے لیے کچھ شرائط کا ہونا ضروری ہے، چنانچہ علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علمائے کرام کے مطابق : ہر گناہ سے توبہ کرنا لازم ہے، چنانچہ اگر گناہ کا تعلق انسان اور بندے کے درمیان ہو ، حقوق العباد اس میں شامل نہ ہوں تو پھر سچی توبہ کی تین شرائط ہیں:
پہلی شرط: گناہ چھوڑ دے۔
دوسری شرط: گناہ ہونے پر نادم ہو۔
تیسری شرط: آئندہ کبھی بھی گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔
اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی معدوم ہوئی تو توبہ صحیح نہیں ہو گی۔" ختم شد
" ریاض الصالحین" ( ص 14 )
لیکن یہاں پر ایک اشکال وارد ہو سکتا ہے کہ کچھ شرائط ایسی ہیں جو والدین کے فوت ہو جانے کے بعد پوری ہی نہیں ہو سکتیں، تو اس کا جواب دو طرح سے ممکن ہے:
پہلا جواب: ایسی صورت میں صرف ندامت ہی توبہ ہو گی۔
جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن معقل بن مقرن کہتے ہیں کہ: "میں اپنے والد کے ہمراہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، تو میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ندامت توبہ ہے۔)" اس حدیث کو امام احمد: (6 / 37) اور ابن ماجہ: (4252)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح ابن ماجہ" میں صحیح قرار دیا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"توبہ کے احکامات میں یہ بھی شامل ہے کہ: اگر کسی نافرمان شخص کے لیے نافرمانی کے ذرائع ہی معدوم ہو جائیں کہ وہ چاہ کر بھی نافرمانی نہ کر سکے، تو کیا اس شخص کی توبہ صحیح ہو گی؟ مثلاً: جھوٹی گواہیاں دینے والا، جھوٹ بولنے والا اور تہمت لگانے والے کی اگر زبان کاٹ دی جائے تو کیا اب اس کی توبہ قبول ہو گی؟ اسی طرح کوئی بھی ایسا شخص جو اب گناہ کے قابل نہیں رہا یا گناہ کے اسباب و ذرائع معدوم ہو گئے تو کیا اس کی توبہ ہو گی؟ اس حوالے سے اہل علم کے دو موقف ہیں:
۔۔۔ دوسرا موقف -اور یہی موقف درست ہے- کہ: اس کی توبہ ہو سکتی ہے، بلکہ لازمی طور پر ہو گی؛ کیونکہ توبہ کے سارے ارکان اس میں موجود ہیں، ان تمام ارکان میں سے ندامت ایسا ہے جو اب بھی یہ کر سکتا ہے، اور ایک مرفوع روایت میں ہے کہ: (ندامت توبہ ہے۔)چنانچہ اگر گناہ پر ندامت ہو جائے ، اپنے آپ کو ماضی میں ہوئے گناہوں پر ملامت کرے، تو یہی اس کی توبہ ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ گناہ گار شخص شدید ندامت کا اظہار کرے اور اپنے آپ کو گناہ پر ملامت بھی کرے اور کہا جائے کی اس توبہ نہیں ہے!؟" ختم شد
"مدارج السالكين " (1 / 741 – 746)
یہی موقف جمہور اہل علم کا ہے، چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس شخص میں کوئی کام کرنے کی سکت ہی نہ ہو پھر بھی وہ اس سے توبہ کرے، مثلاً: ایک شخص جس کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہے وہ زنا سے توبہ کرے، یا جس کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں وہ چوری کرنے سے توبہ کرے، یا اسی طرح کی کوئی اور عدم صلاحیت کی مثال ہو، تو اس کی توبہ بالکل صحیح ہے؛ اہل سنت اور دیگر جمہور اہل علم کے ہاں اس کی توبہ قبول ہو گی۔" ختم شد
" مجموع الفتاوى " (10 / 746)
دوسرا جواب: یہ اللہ تعالی کی مسلمانوں پر رحمت ہے کہ اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے دروازے ان کی وفات کے بعد بھی کھلے رکھے ہوئے ہیں، اس لیے اگر کوئی اولاد والدین کی زندگی میں کوتاہی کا شکار رہی ہے تو پھر اسے چاہیے کہ والدین کی وفات کے بعد حسن سلوک کر سکتا ہے۔
وفات کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا طریقہ کار یہ ہے کہ:
1-کثرت سے ان کے لیے دعائیں کرے۔
فرمانِ باری تعالی ہے: وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ترجمہ: اور کہہ دے: میرے پروردگار! دونوں پر رحم فرما جیسے ان دونوں نے میری بچپن میں پرورش کی تھی۔ [الاسراء: 24]
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس وقت انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے سارے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، سوائے تین ذرائع کے: صدقہ جاریہ، علم نافع جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہوں، اور نیک اولاد جو انسان کے لیے دعا کرے۔) مسلم: (1631)
لہذا والدین کے لیے دعا ، والدین کے ساتھ عظیم ترین احسان ہے۔
جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً انسان کا درجہ جنت میں بلند کر دیا جاتا ہے، تو وہ کہتا ہے: یہ کیسے ہو گیا؟ تو اسے کہا جاتا ہے: تیرے لیے تیرے بچوں کے استغفار کرنے کی وجہ سے۔) اس حدیث کو ابن ماجہ: رحمہ اللہ (3660)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے " السلسلة الصحيحة " (4 / 129) میں حسن قرار دیا ہے۔
2-ایسے نیک اعمال کرنا جن کا ثواب انہیں پہنچتا رہے، مثلاً: ان کی طرف سے صدقہ کرنا۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (218872) کا جواب ملاحظہ کریں۔
والدین کی طرف سے حج اور عمرہ کرنا، کسی کی طرف سے حج یا عمرہ کرنے کے احکامات جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (111794 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اور اگر والدین کے ذمہ قرض ہوں یا ان کے پاس امانتیں پڑی ہوں، تو پھر ان کی طرف سے قرض چکائیں، یا والدین سے کسی پر ظلم ہو گیا ہو تو متاثرین سے معاف کرنے کی درخواست کریں اور انہیں ممکنہ طریقوں سے راضی کریں۔
3-والدین کے دوستوں کی عزت کریں۔
سیدنا عبد اللہ بن دینا رحمہ اللہ ، ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ: "وہ مکہ مکرمہ کے لیے نکلتے تو جب اونٹ کی سواری سے تھک جاتے تو ان کا گدھا (ساتھ ہوتا) تھا جس پر وہ آرام کے لیے سواری کرتے۔ اور ایک عمامہ ہوتا تھا جو اپنے سر پر باندھ لیتے تھے۔ تو ایسا ہوا کہ ایک دن وہ اس گدھے پر سوار تھے کہ ایک بادیہ نشیں ان کے قریب سے گزرا، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے کہا: کیا تم فلاں بن فلاں کے بیٹے نہیں ہو؟! اس نے کہا: کیوں نہیں (اسی کا بیٹا ہوں) تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے گدھا اس کو دے دیا اور کہا: اس پر سوار ہو جاؤ اور عمامہ (بھی) اسے دے کر کہا: اسے سر پر باندھ لو۔ تو ان کے کسی ساتھی نے ان سے کہا: اللہ آپ کی مغفرت کرے! آپ نے اس بدو کو وہ گدھا بھی دے دیا جس پر آپ سہولت (تکان اتارنے) کے لیے سواری کرتے تھے اور عمامہ بھی دے دیا جو اپنے سر پر باندھتے تھے!!۔ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: (والدین کے ساتھ حسن سلوک میں یہ بھی ہے کہ جب اس کا والد فوت ہو جائے تو اس کے ساتھ محبت کا رشتہ رکھنے والے آدمی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔) اور اس کا والد میرے والد عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا۔" صحیح مسلم: (2552)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات