سوال: اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے روزے بغیر کسی عذر کے نہ رکھے، یا جان بوجھ کر روزہ توڑ دے تو کیا اس پر ان تمام دنوں کی قضا دینا واجب ہو گی؟
رمضان کے روزے بغیر عذر کے نہ رکھنے یا عمداً توڑ دینے پر قضا واجب ہے؟
سوال: 234125
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
رمضان کے روزے اسلام کا رکن ہیں، اس لیے کسی بھی مسلمان کیلیے بغیر عذر روزے ترک کرنا جائز نہیں ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص ماہ رمضان کے روزے ترک کر دے یا روزہ بیماری، سفر یا حیض جیسے کسی شرعی عذر کی وجہ سے توڑ دے تو اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہو گی، اس پر سب کا اجماع ہے؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ)
ترجمہ: اور جو شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دیگر ایام میں [روزوں کی] تعداد پوری کرے۔[ البقرة :185]
اور اگر کوئی شخص رمضان کا روزہ جان بوجھ کر چھوڑ دے، یا سستی کرے چاہے صرف ایک دن کیلیے ہی کیوں نہ ہو ، مثلاً: وہ ایک دن کا روزہ رکھتا ہی نہیں ہے، یا رکھتا تو ہے لیکن بغیر کسی شرعی عذر کے توڑ دیتا ہے تو وہ کبیرہ ترین گناہ کا مرتکب ہوا، اس پر توبہ واجب ہے۔
اکثر اہل علم ان تمام دنوں کے روزے رکھنے پر متفق ہیں جن میں روزہ نہیں رکھا گیا، بلکہ کچھ اہل علم نے اس پر اجماع بھی نقل کیا ہے، چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس پر ساری امت کا اجماع ہے اور اس اجماع کو تمام اہل علم نے بیان کیا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر رمضان کے روزے نہ رکھے حالانکہ وہ رمضان کے روزوں کی فرضیت پر ایمان رکھتا ہو، لیکن روزے من مانی کرتے ہوئے عمداً نہیں رکھے ، پھر اس نے بعد میں توبہ کر لی تو اس پر قضا واجب ہے" انتہی
"الاستذكار" (1/77)
اسی طرح ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں:
"ہمیں اس بارے میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے؛ کیونکہ روزے انسان کے ذمے فرض ہیں اور فرائض ادا کرنے سے ہی انسان بری الذمہ ہوتا ہے، لیکن اس شخص نے روزے رکھے ہی نہیں ہے تو اس لیے فرض روزے اس کے ذمے ابھی تک باقی ہیں" انتہی
"المغنی" (4/365)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی (10/143) میں ہے کہ:
"روزوں کی فرضیت کا انکار کرتے ہوئے روزے نہ رکھنے والا شخص اجماعی طور پر کافر ہے، اور اگر کوئی شخص سستی اور کاہلی کی بنا پر ترک کرتا ہے تو وہ کافر نہیں ہے؛ البتہ چونکہ روزے اسلام کا رکن ہیں اور رکن ترک کرنا انتہائی خطرناک معاملہ ہے، روزوں کی فرضیت پر سب کا اجماع ہے، بلکہ حاکم وقت کی جانب سے کڑی سزا کا مستحق بھی ہے ؛ تا کہ اس قسم کے لوگ روزوں کے بارے میں سستی سے باز آ جائیں، تاہم کچھ اہل علم ایسے شخص کے کافر ہونے کے بھی قائل ہیں۔ اسے چھوڑے ہوئے تمام روزے رکھنے ہوں گے اور ساتھ میں اس پر اللہ تعالی سے توبہ مانگنا بھی ضروری ہے" انتہی
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"رمضان میں بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ توڑنے والے کا کیا حکم ہے؟ روزہ توڑنے والے شخص کی تقربیاً 17 سال عمر ہے اور اس کا کوئی عذر بھی نہیں ہے، تو وہ اب کیا کرے؟ کیا اس پر قضا واجب ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جی ہاں! اس پر قضا واجب ہے اور روزے رکھنے میں سستی کرنے پر اللہ تعالی سے توبہ بھی کرے۔ تاہم اس بارے میں جو روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب کی جاتی ہے کہ: (جو شخص رمضان کا ایک روزہ بغیر کسی شرعی رخصت یا بیماری کے نہ رکھے تو ساری زندگی روزے بھی رکھ لے اس کی کمی پوری نہیں کر سکتے) یہ حدیث ضعیف اور مضطرب ہے، اہل علم کے ہاں صحیح ثابت نہیں ہے" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (16/201)
اور کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ جو شخص جان بوجھ کر رمضان کے روزے چھوڑے تو وہ اس کی قضا نہیں دے سکتا ، بلکہ وہ کثرت سے نفل روزے رکھے، یہ اہل ظاہر کا موقف ہے، اسی کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور شیخ ابن عثیمین نے اختیار کیا ہے۔
حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام اہل ظاہر یا اہل ظاہر میں سے اکثریت کا یہ موقف ہے کہ: جان بوجھ کر روزہ چھوڑنے والے پر قضا نہیں ہے، یہی موقف عراق میں امام شافعی کے ساتھی عبد الرحمن ، امام شافعی کے نواسے کا ہے، اور یہی موقف ابو بکر حمیدی سے نماز اور روزے کے متعلق منقول ہے کہ اگر جان بوجھ کر انہیں چھوڑا تو ان کی قضا نہیں ہو سکتی؛ کیونکہ قضا کرنے سے بھی قضا نہیں ہو گی، یہی موقف ہمارے متقدم [حنبلی] فقہائے کرام کی گفتگو میں بھی ملتا ہے، جن میں جوزجانی، ابو محمد بربہاری، اور ابن بطہ شامل ہیں" انتہی
"فتح الباری" (3/ 355)
ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں " بغیر کسی عذر کےجان بوجھ کر روزہ ترک کرنے والا شخص قضا نہیں دے گا اور نہ اس کی قضا صحیح ہو گی ۔"الاختيارات الفقهية" (ص: 460)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"لیکن اگر کوئی شخص سرے سے روزے بغیر عذر کے چھوڑ دے ، نہ رکھے تو صحیح موقف کے مطابق اس پر قضا لازمی نہیں ہو گی؛ کیونکہ قضا روزے رکھنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ اس طرح اس سے روزے شمار نہیں ہوں گے؛ اس لیے کہ یہ اصول ہے کہ: کسی وقت کے ساتھ مختص عبادت کو اس کے وقت سے بلا عذر مؤخر کرنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی شخص بلا عذر مؤخر کرے تو وہ قبول نہیں ہو گی" انتہی
"مجموع الفتاوى" (19/89)
تو خلاصہ یہ ہوا کہ:
اگر کوئی شخص رمضان کے روزے عمداً ترک کرے تو اکثر اہل علم کے ہاں اس پر قضا لازمی ہے، تاہم کچھ علمائے کرام ایسے بھی ہیں جو ایسی صورت میں قضا کے قائل نہیں ہیں؛ کیونکہ اس عبادت کا وقت گزر چکا ہے، تاہم اکثر اہل علم کا موقف راجح اور حق کے زیادہ قریب لگتا ہے؛ کیونکہ یہ عبادت بندے کے ذمے ہے اور یہ اس وقت ادا ہو گی جب اس عبادت کو سر انجام دیا جائے گا۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب