ہمارے علاقے میں مسجدوں کے دروازے روزانہ اذان سے پندرہ منٹ پہلے کھلتے ہیں، جبکہ جمعہ کے دن گیارہ بجے کھلتے ہیں، تو ایسے میں جو شخص اولین گھڑی میں مسجد پہنچنا چاہتا ہو تو وہ کیا کرے؟
جمعہ کے لئے اولین گھڑی میں کیسے پہنچے؛ کیونکہ مساجد تو بند ہوتی ہیں؟
سوال: 241048
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نماز جمعہ کے لئے جلدی مسجد میں پہنچنا سنت ہے؛ اس کی دلیل سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: (جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح غسل کرے، پھر نماز کے لیے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی۔ جو شخص دوسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی کی۔ اور جو شخص تیسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے سینگ دار مینڈھا بطور قربانی پیش کیا۔ جو چوتھی گھڑی میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کیا۔ اور جو پانچویں گھڑی میں جائے تو اس نے گویا ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا۔ پھر جب امام خطبے کے لیے آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں) اس حدیث کو امام بخاری: (881) اور مسلم : (850)نے روایت کیا ہے۔
یہ گھڑیاں سورج طلوع ہونے سے شروع ہو جاتی ہیں، جیسے کہ یہ امام شافعی اور احمد کا موقف ہے۔
دوم:
کوئی شخص جمعہ کے دن پہلی گھڑی میں مسجد جانا چاہے لیکن مسجدوں کے دروازے اذان سے ایک گھنٹہ یا کم و بیش میں ہی کھولے جائیں تو پھر ایسی مسجد میں چلا جائے جس کا باہر بھی صحن ہو، تو وہ وہاں صحن میں بیٹھ کر نفل پڑھے ، قرآن کریم کی تلاوت کرے اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہے یہاں تک کے مسجد کے دروازے کھول دئیے جائیں۔
اگر کوئی ایسی مسجد نہ ہو اور وہ جلدی مسجد چلا گیا تو گلی میں ہی بیٹھ کر مسجد کھلنے کا انتظار کرے گا تو وہ اپنے ہی گھر میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرے، نماز پڑھے، قرآن کی تلاوت کرے ، اور پھر جب دروازے کھولنے کا وقت ہو جائے تو جلدی سے مسجد چلا جائے، اس طرح ہم امید کرتے ہیں کہ اسے جمعہ کے لئے جلدی جانے کا اجر مل جائے گا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسجد میں جلدی جانے کا مطلب یہ ہے کہ انسان مسجد میں جلدی آ کر اللہ کے ذکر اور نفل نماز میں مشغول ہو جائے۔
چنانچہ اگر کوئی شخص جلدی مسجد پہنچنے سے قاصر ہو تو ذکر و نماز سے قاصر نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح جو شخص کوئی بھی نیکی کرنے کی ٹھان لے اور اپنی بساط بھر اس نیکی کو کرنے کی کوشش بھی کرے تو وہ اس نیکی کو بھر پور انداز سے بجا لانے کے برابر ہوتا ہے۔
اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسی شرط جس کی بجا آوری ناممکن ہو تو وہ ساقط ہو جاتی ہے" ختم شد
"شرح عمدة الفقہ" از: كتاب الطهارة والحج (1/ 425)
اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
" جو شخص کوئی بھی نیکی کرنے کی نیت کر لے اور اپنی کوشش کے مطابق اس نیکی کو کرنے کی سعی بھی کرے لیکن پھر بھی کامل انداز میں نہ کر سکے تو اسے اس نیکی کو بھر پور انداز سے بجا لانے والے کے برابر ثواب ہو گا۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (22 /243)
صحیح مسلم : (1909) میں ہے کہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو انسان سچائی کے ساتھ شہادت کی اللہ سے درخواست کرتا ہے، اللہ اسے شہادت کے مقامات پر پہنچا دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے بستر پر فوت ہو)
اس حدیث کی شرح میں صاحب عون المعبود کہتے ہیں:
"حدیث کے الفاظ: (اللہ اسے شہادت کے مقامات پر پہنچا دیتا ہے) کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سچے عزم کا بدلہ دیتے ہوئے اللہ تعالی یہ جزا دیتا ہے۔ اور حدیث کے الفاظ: (اگرچہ وہ اپنے بستر پر فوت ہو) کا مطلب یہ ہے کہ: شہید اور اپنے بستر پر فوت ہونے والے دونوں کی نیت خیر کے لئے ایک جیسی اور یکساں تھی ؛ پھر اس نے حسب استطاعت کوشش بھی کی، اس لیے وہ دونوں بنیادی اجر میں برابر ہو گئے" ختم شد
نیز صحیح بخاری : (4423)میں ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ تبوک سے واپس آتے ہوئے مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا: (کچھ لوگ مدینہ طیبہ میں سے پیچھے رہ گئے ہیں مگر تم جس گھاٹی یا میدان میں گئے وہ ثواب میں ضرور تمہارے ساتھ رہے) تو صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! اور وہ مدینہ میں ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جی ہاں وہ مدینہ میں ہیں، [کیونکہ]انہیں کسی عذر نے روک لیا تھا) ۔
اس حدیث کی شرح میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ لوگ وہ سب کچھ کرنا چاہتے تھے جو غزوے میں شریک لوگ کرتے رہے، انہیں اس کی شدید چاہت تھی، لیکن وہ معذور تھے، تو ان کو بھی غزوے میں شریک لوگوں کے برابر قرار دیا گیا" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (10 /441)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب