کیا عالمی اسٹاک ایکسچینج کے کچھ تجارتی معاہدوں کا مطالعہ کرنا اور انہیں سکھانا جائز ہے، جیسے کہ مستقبل کے معاہدے(Future Contract)؟ واضح رہے کہ میں اس موضوع پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ تیار کر رہا ہوں اس کا عنوان ہے: "مستقبل کے معاہدوں (Future Contract)کے ذریعے تیل کی منڈیوں میں مالی خطرات سے بچاؤ کا طریقہ" کیا میں ایسا عنوان تجویز کر کے اس پر تحقیق کر سکتا ہوں؟ یہ بھی بتلاتا چلوں کہ میرا اسٹڈی ورک مکمل ہونے والا ہے اور جلد ہی اس عنوان پر کام شروع کرنا چاہتا ہوں۔
مستقبل کے معاہدوں (Future Contract)اور اسٹاک ایکسچینج میں خرید و فروخت کا مطالعہ کرنے کا حکم
سوال: 241297
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مستقبل کے معاہدوں (Future Contract) سمیت دیگر تجارتی اور مالی لین دین کے طریقوں کا مطالعہ کرنے میں -چاہے حرام ہی کیوں نہ ہوں-کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کی دو شرائط ہیں:
پہلی شرط: مطالعہ کرنے والے شخص کے پاس اتنا شرعی علم ہو کہ حلال و حرام معاہدوں میں تفریق کر سکے، چاہے اس تفریق کے لیے معتمد اہل علم سے استفسار ہی کیوں نہ کرے، یہ شرط اس لیے کہ مطالعہ کرنے والا غلط چیزوں سے دھوکا نہ کھا جائے ۔
دوسری شرط: مطالعہ کرتے ہوئے یہ نظریہ رکھے کہ ان میں جن مالی معاملات کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے انہیں حرام ہی سمجھے؛ کیونکہ کسی بھی حرام چیز کو پسند کرنا اور اسے تسلیم کرنا جائز نہیں ہے۔
یہاں یہ بھی مناسب ہو گا کہ مطالعہ کرتے ہوئے نیت یہ رکھے کہ حرام کی پہچان ہو اور پھر حرام سے بچے، نیز لوگوں کو بھی اس سے خبردار کرے، اور ایسے متبادل حلال طریقے متعارف کروانے کی کوشش کرے جن کو استعمال کر کے لوگ حرام سے بچ سکیں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (141894 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
"اس مارکیٹ میں ہونے والے مستقبل کے معاہدے (Future Contract) عام طور پر حقیقی بیع اور حقیقی فروخت پر مشتمل نہیں ہوتے؛ کیونکہ ان میں ایسی چیزوں کی خرید و فروخت میں بھی خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان قیمت اور مبیع کا تبادلہ نہیں ہوتا جن میں شرعی طور پر قیمت اور مبیع دونوں یا دونوں میں سے کسی ایک پر قبضہ شرط ہے۔
دوم: فروخت کنندہ کے پاس عام طور پر کرنسی، حصص، بانڈز ، یا سامان تجارت جسے وہ فروخت کر رہا ہے اس کے پاس یہ چیزیں ہوتی ہی نہیں ہیں؛ کیونکہ فروخت کنندہ اس امید پر ہوتا ہے کہ مارکیٹ سے خرید کر وقت مقررہ پر پہنچا دے گا، پھر لین دین کے وقت بیع سلم کی شرط کے مطابق پوری قیمت بھی وصول نہیں کرتا۔
سوم: پھر خریدار بھی عام طور پر خریدی ہوئی چیز آگے فروخت کر دیتا ہے حالانکہ ابھی تک وہ چیز پہلے خریدار کے قبضے میں آئی ہی نہیں ہے، اس سے دوسرا خریدار خرید کر قبضے میں آنے سے پہلے ہی آگے تیسرے کو فروخت کر دیتا ہے تو خرید و فروخت کا یہ عمل ایک ہی چیز پر تکرار کے ساتھ ہوتا ہے یہاں تک کہ مبیع آخری مشتری جو کہ آخری صارف ہے تک پہنچ جاتی ہے جس نے اپنے سے پہلے والے سے یہ چیز عموماً ایسی حالت میں خریدی ہوتی ہے کہ وہ اس کے قبضے میں ہی نہیں ہوتی، یا ڈلیوری کے وقت اس کی قیمت لگاتا ہے اور اسی وقت خریداری کو حتمی شکل دی جاتی ہے، جبکہ اس سلسلے کے سب سے پہلے اور سب سے آخری بائع اور مشتری کا کردار صرف یہ ہوتا ہے کہ منافع میں فروخت ہوا تو منافع وصول کر لیا اور اگر ریٹ کم لگا تو مقررہ وقت میں جیب سے ادا کرتے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے جوا باز کرتے ہیں۔" ختم شد
ماخوذ از: اسٹاک ایکسچینج کے معاملات کے بارے میں اسلامی فقہ اکادمی کی قرارداد۔ اس حوالے سے مکمل قرار داد کا مطالعہ کرنے کے لیے آپ سوال نمبر: (124311) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اسلامی فقہ اکادمی کی ایک اور قرار داد میں ہے کہ:
"عالمی منڈیوں میں ہونے والے تجارتی معاملات میں عام طور پر بہت سے غیر شرعی لین دین پائے جاتے ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں:
1-بانڈز کا لین دین ، جو کہ حرام سود کے زمرے میں آتا ہے، اور اس کے حرام ہونے کے متعلق اسلامی فقہ اکادمی کے جدہ میں ہونے والے چھٹے اجلاس کی (60) نمبر قرار داد بالکل واضح ہے۔
2-مختلف کمپنیوں کے حصص کی بلا تفریق خرید و فروخت، رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی فقہی اکادمی کے سن 1415 ہجری میں منعقد ہونے والے 14 ویں اجلاس میں صراحت کے ساتھ یہ قرار داد پیش کی کہ ایسی کمپنیوں کے حصص کی تجارت حرام ہے جن کی بنیادی تجارتی سرگرمی حرام ہے، یا اس کے کچھ معاملات میں سود پایا جاتا ہے۔
3- کرنسی کا لین دین عموماً شرعی طور قبضہ میں لیے بغیر کیا جاتا ہے حالانکہ قبضہ میں لیے بغیر کرنسی کا کاروبار جائز ہی نہیں ہے۔
4- مستقبل کے معاہدے(Future Contract) اور آپشن معاہدے (Option Contract) ان منڈیوں میں کیے جاتے ہیں ، حالانکہ اسلامی فقہ اکادمی کے چھٹے اجلاس کی (63) ویں قرارداد میں واضح ہے کہ آپشن معاہدے (Option Contract) شرعی طور پر جائز نہیں ہیں؛ کیونکہ جس چیز پر لین دین کیا جا رہا ہے نہ تو وہ مال ہے اور نہ ہی کوئی خدمت ہے، اور نہ ہی یہ کوئی مالی حق ہے جس کا عوض لینا جائز ہو ۔۔، اسی میں مستقبل کے معاہدے(Future Contract) اور انڈیکس ٹریڈنگ بھی شامل ہے۔" ختم شد
مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (106094 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس ساری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں مستقبل کے معاہدے (Future Contract) اور دیگر حرام لین دین کیے جاتے ہیں، اور ایک محقق کی ذمہ داری بنتی ہے کہ خود ان کا حکم سمجھے اور دوسروں کو بھی بتلائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ محقق خود ہی حرام لین دین سے دھوکا کھا جائے اور ایسی بات لکھ دے جن سے ان حرام تجارتی سرگرمیوں کی مدد ہو یا ان کی ترویج کا باعث ہو۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات