بعض لوگ کہتے ہیں کہ قبروں پر مساجد بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس کیلئے وہ لوگ سورہ کہف کی اس آیت کو دلیل بناتے ہیں: قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًابا اثر شخصیات نے کہا کہ ہم ان پر مسجد ضرور بنائیں گے۔[الكهف : 21] تو کیا انکا یہ کہنا درست ہے؟ اسکا جواب کیسے دیا جائے گا؟
قبروں پر مساجد بنانے کا حکم
سوال: 26312
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
انبیاء و صالحین کی قبروں اور آثار پر مساجد بنانے کے متعلق پوری شریعت اسلامیہ میں سخت ممانعت کی گئی ہے اور ایسے کرنے سے خبردار کیا گیا ہے، حتی کہ ان کاموں کے کرنے والے پر لعنت بھیجی گئی ہے؛ اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ شرک کے ذریعہ اور انبیاء و صالحین کے بارے میں غلو ہے، اور موجودہ حقائق اس بارے میں شرعی احکامات کے درست ہونے پر شاہد ہیں، یہ حقائق اس بات کی بھی دلیل ہیں کہ شرعی احکام اللہ عز وجل کی جانب سے ہیں، اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اللہ کا پیغام پہنچا دینے کی بھی روزِ روشن کی طرح عیاں دلیل ہیں۔
عالم اسلامی کی صورت حال پر غور و فکر کرنے والے ہر شخص کیلئے یہ واضح ہے کہ امت میں پایا جانے والا شرک اور غلو قبروں ، مزاروں پر مساجد بنانے ، اور ان مزاروں کی تعظیم، تزیین و آرائش ، اور انکی انتظامی کمیٹیاں بنانے کی وجہ سے ہے، اور اسے یقینی طور پر یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ یہ شرک کے وسائل میں سے ہیں۔
اور یہ شریعتِ اسلامیہ کی خوبی ہے کہ شریعت میں ان تمام کاموں سے منع کرتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے، اس بارے میں وارد شدہ احادیث میں سے وہ روایت بھی ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے :(1330) پر اور امام مسلم رحمہ اللہ نے : (529) میں ذکر کیا ہے، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فر مائے، کہ انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا) عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: آپ انکے عمل سے اپنی امت کو خبر دار فرما رہے تھے، مزید کہتی ہیں کہ: اگر یہی خدشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے ساتھ نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک سب کے سامنے عیاں ہوتی”
اسی طرح صحیحین ہی میں ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کلیسا کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ کے علاقے میں دیکھا تھا، اور اس میں موجود تصاویر کا بھی ذکر کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا تو اسکی قبر پر مسجد بنا کر اس میں انکی تصاویر بناتےتھے ، یہ لوگ اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں” بخاری: (427) مسلم: (528)
اور صحیح مسلم : (532) میں جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پانچ دن پہلے آپ سے سنا، آپ فرما رہے تھے: (میں اللہ کے سامنے اظہار براءت کرتا ہوں کہ میرا تم میں سے کوئی خلیل بھی ہے، بیشک اللہ تعالی نے مجھے ایسے ہی اپنا خلیل بنایا، جیسے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا تھا، اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بنانا چاہتا تو ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا، خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں پر مساجد بنا لیتے تھے، خبردار! تم قبروں کو مساجد مت بنانا، بیشک میں تمہیں اس سے روک رہا ہوں)
اس بارے میں متعدد احادیث موجود ہیں، اور چاروں فقہی مذاہب و دیگر مسلم علمائے کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے واضح لفظوں میں قبروں پر مساجد بنانے سے منع اور خبردار کیا ہے، تا کہ امت کی خیر خواہی ہوسکے، اور امت ایسے کاموں میں ملوّث نہ ہو جائے جن میں غلو پسند یہودی اور عیسائی وغیرہ مبتلا ہو گئے ۔
کچھ لوگ اس مسئلہ کیلئے اہل کہف کا قصہ بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کا ان کے بارے میں فرمان ہے:
قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَى أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِمْ مَسْجِدًا
ترجمہ: [اہل کہف کے ]بارے میں با اثر شخصیات نے کہا کہ ہم ان پر مسجد ضرور بنائیں گے۔[الكهف : 21]
تو اسکے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ:
اس میں صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالی نے اس زمانے کے طاقتور اور صاحب اثر لوگوں کی یہ بات ذکر کی ہے کہ انہوں نے یہ بات کہی تھی، چنانچہ انکے بارے میں یہ خبر بطور رضا مندی یا ان کی اس بات کو صحیح قرار دیتے ہوئے ذکر نہیں کی بلکہ انکی مذمت، اور انکے قول و فعل سے نفرت دلانے کے طور پر ذکر کی ہے، اسکی دلیل یہ ہے کہ جس ذات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ، جنہیں اس آیت کی تفسیر کا سب سے زیادہ علم ہو سکتا ہے انہوں نے قبروں پر مساجد بنانے سے منع فرمایا اور اس کام سے خبردار بھی کیا ، اور ایسا کام کرنے والے پر لعنت و مذمت فرمائی۔
اگر یہ کام جائز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کام کے متعلق اتنے سخت اور شدید احکامات جاری مت فرماتے ، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو کرنے والے پر لعنت فرمائی، اور یہاں تک فرمایا کہ یہ لوگ اللہ کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کے ان فرامین کے بعد متلاشیانِ حق کیلئے کوئی کمی نہیں رہ جاتی۔
اور اگر ہم بفرضِ محال یہ مان بھی لیں کہ ہم سے پہلے والی امتوں کیلئے قبروں پر مسجدیں بنانا جائز تھا تو ہمارے لئے ان کے اس عمل کی اتباع کرنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ہماری شریعت کی وجہ سے سابقہ تمام شریعتیں منسوخ ہو چکی ہیں، اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الرسل ہیں، آپکو دی گئی شریعت کامل اور سب کیلئے ہے، اور اسی شریعت کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قبروں پر مساجد بنانے سے منع فرمایا، اس لئے ہمارے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی مخالفت کسی شکل میں جائز نہیں ہے، بلکہ ہمارے لئے آپکی اتباع، اور آپکو دی گئی شریعت پر کار بند رہنا ضروری ہے، چنانچہ اس سے پہلے والی تمام شریعتوں اور ان کے ہاں اچھی سمجھی جانے والی اخلاقی اقدار کو چھوڑنا ہمارے لئے حتمی ہے ؛ کیونکہ اللہ کی شریعت سے بڑھ کر کوئی شریعت کامل نہیں ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی سے بڑھ کر کوئی رہنمائی نہیں ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اپنے دین پر ثابت قدم، اور اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر قولاً و عملاً ، ظاہراً و باطناً ، اور زندگی کے تمام معاملات میں پابند رہنے کی توفیق دے، یہاں تک کہ ہم اللہ تعالی کو جا ملیں، بیشک وہ سننے والا، اور قریب ہے۔
وصلى الله وسلم على عبده ورسوله محمد وآله وصحبه ومن اهتدى بهداه إلى يوم الدين۔” انتہی
ماخوذ از: “مجموع فتاوى و مقالات “از: شيخ ابن باز رحمہ الله ( 1 / 434 )
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد