کیا اس جہان کی ہر چیز کو اللہ تعالی نے پہلے سے لکھا ہوا ہے؟ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر ہمیں اختیار کس طرح حاصل ہے؟ پھر اگر ہم تقدیر میں تبدیلی نہیں لا سکتے تو ہمارے اختیار کا کیا فائدہ ہے؟ اور کیا تقدیر میں ہماری جسمانی کیفیت اور موت بھی شامل ہے؟ میرے ایک نہایت عزیز شخص ہیں ان سے میں کچھ ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جسے وہ قبول نہیں کرے گا، میرا خیال ہے کہ وہ خبر سننے پر یا تو وہ مر جائے گا، یا اسے دل کا دورہ پڑ جائے گا، یا وہ مجھے گھر سے بے دخل کر دے گا اور میرے لیے کھانا، پینا اور پیسہ کچھ بھی نہیں چھوڑے گا، اور وہ میری زندگی کو مکمل طور پر تباہ کر دے گا، اسی طرح بہت سے ایسے لوگوں کی زندگیاں بھی جن سے میں محبت کرتا ہوں، یہ شخص بہت سے عوامل کی وجہ سے میری دینی اور مذہبی شناخت سمیت نمازوں وغیرہ کے رائیگاں ہونے کا سبب ہے جو کہ میرے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے۔ میرے لیے اس وقت واجب ہو گیا ہے کہ میں اسے بتلاؤں اور اس پاگل پن سے اسے روکوں، تاہم صرف ایک ہی وجہ ہے جو مجھے اس سے بات کرنے سے روکتی ہے وہ یہ کہ : مجھے ڈر ہے کہ میں اس کی موت کا سبب بنوں گا، اور میں چاہتا ہوں کہ کوئی مجھے بتائے کہ اس کی موت اللہ کے حکم اور تقدیر میں کس وقت کی لکھی گئی ہے، تاکہ میں اس سے اپنے دل کی بات کر سکوں، لیکن ہر کوئی مجھ سے کہتا ہے کہ ہم سب تقدیر کے عین مطابق چلائے جا رہے ہیں، اور ہم زندگی میں اپنے فیصلوں کے ذریعے اپنی تقدیر بدل سکتے ہیں، لیکن کیا اس کا مطلب یہ نہیں بنتا کہ اللہ تعالی عظیم نہیں ہے؟ میں اسے تسلیم نہیں کر سکتا! یا تو اللہ بڑا ہے اور تقدیر کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، یا صحیح بخاری اور مسلم میں مذکور باتیں جو مجھے لوگ بتاتے ہیں وہ جھوٹ ہے! یا اللہ تعالی کی ذات جھوٹ ہے، میں یہ آخری بات بھی تسلیم نہیں کر سکتا۔
کیا تقدیر میں تبدیلی ممکن ہے؟ جب تقدیر ہم پر مسلط ہے تو ہمیں اختیار کیسا؟
سوال: 264354
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اس کائنات کی ہر چیز جو ماضی میں ہو چکا یا مستقبل میں ہو گا سب کچھ اللہ تعالی نے اپنے پاس لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے، یہ سب چیزیں اللہ تعالی کے علم میں ہیں اور مشیئت کے تحت ہیں، تو چاروں مراتب (کتابت، علم، مشیئت اور خلق) کے ساتھ "تقدیر" کہلاتی ہے۔
اس کے دلائل کے طور پر فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ
ترجمہ: بے شک ہم نے جو بھی چیز پیدا کی ہے، ہم نے اسے تقدیر کے مطابق پیدا کیا ہے۔ [القمر: 49]
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُهَا إِلا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلا يَعْلَمُهَا وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الأَرْضِ وَلا رَطْبٍ وَلا يَابِسٍ إِلا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ
ترجمہ: اور غیب کی چابیاں تو اسی کے پاس ہیں جسے اس کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ زمیں اور سمندر میں جو کچھ ہے اسے وہی جانتا ہے اور کوئی پتہ تک نہیں گرتا جسے وہ جانتا نہ ہو، نہ ہی زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ہے جس سے وہ باخبر نہ ہو۔ اور تر اور خشک جو کچھ بھی ہو سب کتاب مبین میں موجود ہے۔ [الانعام: 59]
اسی طرح فرمایا: مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
ترجمہ: کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ یقیناً یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ [الحديد: 22]
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
ترجمہ: اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہونے والا تاآں کہ اللہ تعالی چاہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔ [التكوير: 29]
اسی طرح صحیح مسلم: (2653) میں سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی نے سب مخلوقات کی تقدیریں آسمانوں اور زمین پیدا کرنے سے 50 ہزار سال پہلے لکھ دی تھیں۔) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزید فرمایا: (اور اللہ تعالی کا عرش پانی پر ہے۔)
دوم:
اللہ تعالی کی لکھی ہوئی تقدیر کو تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالی نے تقدیر میں لکھا ہوا ہے کہ فلاں شخص ایمان کی حالت میں فوت ہو گا، یا کفر کی حالت میں مرے گا۔ یا بڑی خوشحال زندگی گزارے گا یا تنگ دستی کی زندگی گزارے گا، یا اس کی اولاد کی تعداد مثلاً: دس ہو گی۔ وغیرہ تو اسے تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے؛ کیونکہ اگر اسے تبدیل کرنا ممکن ہو تا تو یہ اللہ تعالی کے علم ، ارادے، اور عظمت میں خلل کا باعث ہوتا۔ لہذا صرف وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالی چاہے، اور جو اللہ تعالی نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پیچھے تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اے لڑکے! بیشک میں تمہیں چند اہم باتیں بتلا رہا ہوں: تم اللہ کو یاد رکھو، وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تم اللہ کے حقوق کا خیال رکھو تو تم اسے اپنی سمت میں ہی پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو تو صرف اللہ سے مانگو، جب تم مدد چاہو تو صرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہو کر تمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر ساری امت تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہو جائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور [تقدیر کے] صحیفے خشک ہو گئے ہیں) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (2516) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
یہاں اس بات کی بھی وضاحت کرتے چلیں کہ تقدیر کا ایک درجہ اور بھی ہے اور وہ ہے فرشتوں کے ہاتھوں میں دیئے جانے والے صحیفوں میں تقدیریں لکھنا۔
چنانچہ اس کا تذکرہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ : " ہمیں صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث بیان فرمائی کہ : (تمہاری پیدائش کی تیاری تمہاری ماں کے پیٹ میں چالیس دنوں تک ہوتی ہے، پھر ایک خون کے لوتھڑے کی صورت اختیار کیے رہتا ہے اور پھر وہ اتنے ہی دنوں تک مضغہ [چبائے ہوئے] گوشت جیسا رہتا ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالی ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتیں لکھنے کا حکم دیتا ہے ۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل ، اس کا رزق ، اس کی مدت زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک ، لکھ لے ۔ )" اس حدیث کو امام بخاری: (3208) اور مسلم : (2643) نے روایت کیا ہے۔
اس درجے کی بابت ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ تقدیر بدل سکتی ہے، اور یہاں تقدیر کے بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ فرشتوں کے صحیفوں میں جو کچھ لکھا ہوا ہے صرف وہی تبدیل ہو ، مثلاً: ان صحیفوں میں لکھا ہو کہ فلاں شخص بیمار ہو گا، لیکن وہ شخص دعا کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے دعا کرنے کی وجہ سے عافیت دے دیتا ہے، اور وہ شخص بیماری سے بچ جائے۔
یا ان صحیفوں میں لکھا ہو کہ اس کی عمر 60 سال ہو گی، لیکن یہ شخص صلہ رحمی کرے تو اس کی عمر میں اضافہ کر کے 70 سال کر دیا جائے۔
تو فرشتوں کے ہاتھوں میں موجود صحیفوں میں تقدیر کی تبدیلی ممکن ہے، اس میں کوئی مانع نہیں ہے۔
یہ تبدیلی لوح محفوظ میں لکھی ہوئی تقدیر میں تبدیلی نہیں ہے، نہ ہی اللہ تعالی کے علم میں موجود تقدیر میں تبدیلی ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کو تو پہلے ہی علم ہے کہ یہ شخص ایسے کرے گا تو اسے بیماری سے بچا لے گا یا پھر اس کی عمر میں اضافہ فرما دے گا۔ لہذا جو کچھ لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے، یا جو کچھ اللہ تعالی کے علم میں ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو سکتی، جیسے کہ اس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
اور جہاں تک فرشتوں کے ہاتھوں میں موجود صحیفوں میں لکھی ہوئی چیزوں میں تبدیلی کا معاملہ ہے تو یہ تبدیلی ثابت ہے، اس کے ثابت ہونے میں کوئی مانع بھی نہیں ہے؛ اس کی دلیل سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قضائے الہی کو دعا کے علاوہ کوئی چیز ٹال نہیں سکتی، اور [رشتہ داروں کے ساتھ] نیکی کے علاوہ زندگی میں کوئی چیز اضافہ نہیں کر سکتی) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (2139) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ یہ روایت مسند احمد: (22386) اور ابن ماجہ: (90) میں سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے بہ ایں الفا ظ مروی ہے: (تقدیر کو دعا کے علاوہ کوئی چیز ٹال نہیں سکتی۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابن ماجہ میں حسن قرار دیا ہے۔
سوم:
چیزیں تقدیر میں لکھی ہوئی ہوں اور ہمیں ان کے کرنے یا نہ کرنے کا اختیار بھی ہو ان دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں ہے؛ کیونکہ ہمیں یہ تو معلوم نہیں ہے کہ ہمارے بارے میں کیا لکھا ہوا ہے اور پھر ہم کوئی بھی کام کرتے ہوئے پوری آزادی سے فیصلہ کرتے ہیں۔ نیز ہم اپنے ہی جسم میں ایسی حرکتوں میں امتیاز کر سکتے ہیں جو ہمارے ارادے کے بغیر ہی ہو رہی ہیں، مثلاً: دل کی حرکت، اور آنتوں کی حرکت وغیرہ اور جو حرکتیں ہم اپنے اختیار سے کرتے ہیں، مثلاً: ہاتھ یا پاؤں کی حرکت، یا آنکھوں وغیرہ کی حرکت۔
اسی لیے انسان کا محاسبہ ان افعال پر ہو گا جو افعال یہ اپنے اختیار سے کرتا ہے، چنانچہ انسان کو خیر یا شر کا کام کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ لہذا انسان کسی بھی کام کرنے پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ذمے لکھا ہی ایسا ہوا تھا؛ کیونکہ اسے تو یہی معلوم نہیں ہے کہ اس کی تقدیر میں کیا لکھا ہوا تھا، زیادہ سے زیادہ کام کے کرنے کے بعد اسے علم ہوتا ہے کہ میری تقدیر میں کیا لکھا ہوا تھا! پھر اسے کسی بھی کام کے آخری نتیجے کا بھی علم نہیں ہے، تو ایسا ممکن ہے کہ تقدیر میں لکھا ہوا ہو کہ فلاں شخص گناہ کرنے کے بعد مثلاً: دعا کرے گا، یا اللہ تعالی سے بخشش طلب کرے گا تو اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا اور یہ بندہ دوبارہ راہِ راست پر چل کر اپنے آپ کو سدھار لے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ: "تو کیا ہم لکھی ہوئی تقدیر پر اعتماد کرتے ہوئے عمل کرنا ترک کر دیں؟" تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں جواباً فرمایا: (نیک عمل کرو ، ہر شخص کو انہی اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جن کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے جو شخص نیک ہو گا اسے نیکوں کی توفیق ملی ہوتی ہے اور جو بد بخت ہوتا ہے اسے بد بختوں کے عمل کی توفیق ملتی ہے پھر آپ نے آیت فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى آخر تک پڑھی ۔ ترجمہ: ” سو جس نے دیا اور اللہ سے ڈرا اور اچھی بات کو سچا سمجھا ، سو ہم اس کے لئے نیک عملوں کو آسان کر دیں گے ۔) اس حدیث کو امام بخاری: (4949) اور مسلم : (2647) نے روایت کیا ہے۔
چنانچہ انسان پر اس زندگی میں صرف یہی لازم ہے کہ وہ محنت کر کے عمل کرے، اس بات میں مت پڑے کہ میری تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے؟ کیونکہ اسے اپنی تقدیر جاننے کا کوئی راہ قطعاً نہیں مل سکتا۔ البتہ اسے اتنا کافی ہو گا کہ محنت کرے اور نیکیاں کمائے، اہل جنت والے اعمال دنیا میں کرے کہ: نیکی عمل کرنے سے حاصل ہوتی ہے، اور جنت کے درجات محنت کرنے سے ملتے ہیں محض خواہشات کرنے سے نہیں۔
اور اگر کسی کو ہر وقت یہی پڑی ہو کہ اس کی تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے؟ تو پھر اپنے ذہن میں یہ بٹھا لے کہ اللہ تعالی نے اس کی تقدیر میں نیکیاں لکھی ہیں، اس کی تقدیر میں یہ لکھا ہے کہ وہ جہنمیوں والے کام نہ کرے۔ یعنی مطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالی نے اس پر فرض کیا ہوا ہے ، شریعت میں اسے یہی حکم دیا ہے، تو نیکیوں کے لیے ہمت باندھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہو گا۔
ذہن میں یہ بات بٹھانا کہ ہر چیز تقدیر کے مطابق ہوتی ہے، اس سے انسان کو مشکلات اور مصیبت کے وقت اطمینان ملتا ہے، انسان مایوس نہیں ہوتا، اور یہ نہیں کہتا کہ: شاید میں فلاں ، فلاں کام کر لیتا تو یہ کچھ نہ ہوتا۔ اللہ تعالی کے فرمان میں یہی کہا گیا ہے کہ:
مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ (22) لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
ترجمہ: کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ یقیناً یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ تاکہ تم نہ اس پر غم کرو جو تمھارے ہاتھ سے نکل جائے اور نہ اس پر پھول جاؤ جو وہ تمھیں عطا فرمائے اور اللہ کسی تکبر کرنے والے، بہت فخر کرنے والے سے محبت نہیں رکھتا۔ [الحديد: 22- 23]
چہارم:
آپ نے اپنے دوست کے بارے میں پوچھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ : اس کی موت کا وقت بھی لکھا ہوا ہے، اللہ تعالی کے علم میں ہے، اور وہ تبدیل نہیں ہو گا، تاہم ہر چیز اپنے اسباب کے ساتھ ہوتی ہے تو ممکن ہے کہ یہ لکھا ہو کہ اس کی وفات فلاں شخص سے خبر سن کر ہو گی، یا کسی بیماری کے باعث مرے گا، یا اسے کوئی قتل کرے گا، یا وہ جل کر موت کے منہ میں جائے گا، لہذا اس کی موت ایسے ہی ہو گی جیسے لکھی ہوئی ہے۔
یہاں ہم پھر دوبارہ وہی بات کرتے ہیں کہ: تقدیر میں کیا لکھا ہوا ہے؟ اس کے بارے میں مغز ماری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کا سوال تقدیر کے بارے میں نہیں بلکہ شریعت کے بارے میں ہونا چاہیے ؛ چنانچہ آپ کا سوال یہ بنتا ہے کہ: کیا میں اپنے دوست کو ایسی خبر بتلا سکتا ہوں جس سے ممکن ہے اس کی موت واقع ہو جائے؟ یا اس خبر کی وجہ سے اسے یا مجھے کوئی نقصان پہنچے؟
تو اس سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دیا جا سکتا جب تک خبر کی ماہیت کا علم نہ ہو، اور اس خبر کے اس شخص کے ساتھ تعلق کا علم نہ ہو؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ سوال کسی ایسی غلطی اور گناہ کے متعلق ہو جس سے متنبہ کرنا لازمی ہو، یا کسی ایسی بات کے متعلق ہو کہ جس پر خاموشی اختیار کرنا ممکن نہ ہو، مثلاً: اس کے لیے آپ فرض کریں کہ ایک شخص کی کسی عورت سے شادی کو کئی سال گزر چکے ہیں، اور یہ مرد اپنی بیوی سے محبت بھی بہت زیادہ کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہو کہ ان دونوں کی آپس میں شادی جائز ہی نہ ہو، مثلاً: وہ خاتون اس مرد کی رضاعی بہن ہو یا خالہ ہو۔ تو ایسی صورت میں ہمارے پاس خبر بتلانے کے علاوہ کوئی بھی اختیار نہیں ہو گا؛ کیونکہ اگر یہ مرد اس عورت کے ساتھ بطور خاوند رہتا ہے تو یہ زنا ہو گا۔
ہاں یہ ہے کہ اگر ایسی خبر دینے سے موت کا غالب گمان ہو تو اگر فوری طور پر خبر بتلائے بغیر حرام کام سے بچایا جا سکے تو پھر اس میں کوئی حرج ، مثلاً: اس خاتون کو کہیں سفر پر بھیج دیا جائے، یا کوئی اور طریقہ کار اختیار کیا جائے۔
مطلب یہ ہے کہ: متعلقہ تمام امور کو بعینہٖ اہل علم کے سامنے پیش کیا جائے تا کہ اہل علم اس بارے میں بہتر فیصلہ کر سکیں، اور بتلائیں کہ اس معاملے سے کیسے نمٹا جائے؛ کہ فوری بتلانا ضروری ہے یا تاخیر ممکن ہے یا کسی بھی صورت میں بتلانا سرے سے واجب ہی نہیں ہے!
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو رہنمائی، توفیق اور بھلائی نوازے۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب