ميں نےحيض كي بنا پر كئي برس سے رمضان ميں بعض ايام كےروزے نہيں ركھے اور ابھي تك نہيں ركھ سكي، مجھےكيا كرنا ہوگا ؟
رمضان كي قضاء ميں دوسرا رمضان شروع ہونے تك تاخير كرنا
سوال: 26865
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ جس نےبھي رمضان المبارك كےروزے نہ ركھے اس پرآئندہ رمضان آنے سے قبل روزوں كي قضاء كرني واجب ہے .
اس ميں انہوں نے مندرجہ ذيل حديث سے استدلال كيا ہے:
عائشہ رضي اللہ تعالي عنھا بيان كرتي ہيں كہ : ( ميرے ذمہ رمضان المبارك كےروزہ ہوتے تو ميں اس كي قضاء شعبان كےعلاوہ كسي اور مہينہ ميں كرسكتي تھي، اور يہ نبي كريم صلي اللہ صلي اللہ عليہ وسلم كے مرتبہ كي بنا پر ) صحيح بخاري ( 1950 ) صحيح مسلم ( 1146 )
حافظ بن حجر رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:
عائشہ رضي اللہ تعالي عنہا كي شعبان ميں حرص كي بنا پر يہ اخذ كيا جا سكتا ہے كہ رمضان كےروزوں كي قضاء ميں اتني تاخير كرني جائز نہيں كہ دوسرا رمضان شروع ہوجائے اھ .
اور اگر كسي نے رمضان كي قضاء ميں اتني تاخير كردي كہ دوسرا رمضان بھي شروع ہوگيا تويہ دوحالتوں سے خالي نہيں :
پہلي حالت :
يہ تاخير كسي عذر كي بنا پر ہو، مثلا اگروہ مريض تھا اور دوسرا رمضان شروع ہونے تك وہ بيمار ہي رہا تواس پر تاخير كرنے ميں كوئي گناہ نہيں كيونكہ يہ معذور ہے، اوراس كےذمہ قضاء كےعلاوہ كچھ نہيں لھذا وہ ان ايام كي قضاء كرے گا جواس نے روزے ترك كيے تھے.
دوسري حالت :
بغير كسي عذر كےتاخير كرنا : مثلا اگر وہ قضاء كرنا چاہتا تو كرسكتا تھا ليكن اس نےآئندہ رمضان شروع ہونےتك قضاء كےروزے نہيں ركھے .
تو يہ شخص بغير كسي عذر كےقضاء ميں تاخير كرنے پر گنہگار ہوگا، اور علماء كرام كا متفقہ فيصلہ ہے كہ اس پر قضاءلازم ہے، ليكن قضاء كےساتھ ہر دن كےبدلے ايك مسكين كوكھانا كھلانے ميں اختلاف ہے كہ آيا وہ كھانا كھلائے يا نہيں ؟
آئمہ ثلاثہ امام مالك، امام شافعي اور امام احمد رحمھم اللہ تعالي كہتے ہيں كہ اس كےذمہ كھانا ہے اور انہوں نےاس سے استدلال كيا ہے كہ: بعض صحابہ كرام مثلا ابوھريرہ اور ابن عباس رضي اللہ تعالي عنھم سے يہ ثابت ہے .
اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں كہ قضاء كےساتھ كھانا كھلانا واجب نہيں .
انہوں اس سے استدلال كيا ہے كہ: اللہ تعالي نے رمضان ميں روزہ چھوڑنے والےكوصرف قضاء كا حكم ديا ہے اور كھانا كھلانے كاذكر نہيں كيا، فرمان باري تعالي ہے:
اور جوكوئي مريض ہو يا مسافر وہ دوسرےايام ميں گنتي پوري كرے البقرۃ ( 185 )
ديكھيں: المجوع ( 6 / 366 ) المعني ( 4 / 400 )
اورامام بخاري رحمہ اللہ نے اپني صحيح بخاري ميں اس دوسرے قول كو ہي اختيار كيا ہے. امام بخاري كہتےہيں:
ابراھيم نخعي رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں: جب كسي نے كوتاہي كي حتي كہ دوسرا رمضان شروع ہوگيا تووہ روزے ركھےگا اور اس كےذمہ كھانا كھلانا نہيں اور ابي ھريرہ رضي اللہ اورابن عباس رضي اللہ تعالي عنھم سے مرسلا مروي ہےكہ وہ كھانا كھلائےگا، پھر امام بخاري كہتے ہيں: اور اللہ تعالي نے كھانا كھلانےكا ذكر نہيں كيا بلكہ يہ فرمايا: ( دوسرے ايام ميں گنتي پوري كرے ) اھ .
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كھانا كےعدم وجوب كا فيصلہ كرتے ہوئے كہتےہيں:
اور رہا صحابہ كرام رضوان اللہ عليھم اجمعين كےاقوال جب قرآن مجيد كےظاہرا خلاف ہوں تو اسے حجت ماننا محل نظر ہے، اور يہاں كھانا كھلانا قرآن مجيد كےظاہرا خلاف ہے كيونكہ اللہ تعالي نے توصرف دوسرے ايام ميں گنتي پوري كرنا واجب قرار ديا ہے، اس سےزيادہ كچھ واجب نہيں كيا، تواس بنا پر ہم اللہ كےبندوں پروہ لازم نہيں كرينگےجواللہ تعالي نےان پرلازم نہيں كيا ليكن اگر دليل مل جائے توپھر تا كہ ذمہ سے بري ہوسكيں، ابن عباس اور ابو ھريرہ رضي اللہ تعالي عنھم سےجومروي ہے يہ ممكن ہےكہ اسے استحباب پر محمول كيا جائے نہ كہ وجوب پر، تواس مسئلہ ميں صحيح يہي ہےكہ اس پر روزوں سے زيادہ كسي چيز كو لازم نہيں كيا جائےگا، ليكن تاخير كي بنا پر وہ گنہگار ضرور ہے. اھ
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 451 )
اور اس بناپر واجب توصرف قضاء ہي ہے، اور جب انسان احتياط كرنا چاہے تو ہر دن كےبدلے ايك مسكين كو كھانا بھي كھلائے توبہتر اوراحسن اقدام ہوگا.
(اگر تو اس نے بغير كسي عذر كےتاخير كي ہے تو ) سوال كرنے والي كو چاہيے كہ وہ اللہ تعالي سےتوبہ واستغفار كرے اور يہ عزم كرےكہ آئندہ مستقبل ميں اس طرح كا كام نہيں كرےگي .
اللہ تعالي سے دعا ہے كہ وہ ہميں اپني رضا و خوشنودي اور پسند كےكام كرنے كي توفيق عطا فرمائے .
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب