کیا مسلمان پر لا الہ الا اللہ کی شرائط جاننا واجب ہے؟ اور اگر کسی کو یہ شرائط معلوم نہ ہوں تو کیا وہ کافر ہو جائے گا؟
کیا کلمہ توحید کی شرائط پہچاننا واجب ہے؟
سوال: 290143
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شریعت اسلامیہ کی روشنی میں یہ بات واضح طور پر معلوم ہے کہ کلمہ توحید کا مسلمان کو آخرت میں فائدہ ہو گا، اور کلمہ توحید کی بدولت وہ اہل جنت میں شامل ہو کر جہنم سے نجات پا جائے گا؛ بشرطیکہ کلمہ توحید کا معنی سمجھتا ہو اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کرے۔
جیسے کہ شیخ سلیمان بن عبد اللہ بن محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سیدنا عبادہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اسی طرح سیدنا عیسی اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ اللہ کا کلمہ تھے جسے اللہ تعالی نے سیدہ مریم کی طرف القا کیا اور اسی کی روح ہیں۔ جنت حق ہے اور جہنم بھی حق ہے۔ ایسے شخص کو اللہ تعالی جنت میں داخل فرمائے گا، چاہے وہ کوئی بھی عمل کرے)
اس حدیث میں ہے کہ: (جو شخص گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں) یعنی جو شخص بھی لا الہ الا اللہ اس کے معنی کو سمجھتے ہوئے پڑھتا ہے، ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے اس کے تقاضوں پر عمل بھی کرتا ہے۔ اسے یہ فضیلت حاصل ہو گی۔ جیسے کہ یہی بات اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر بھی ذکر فرمائی: فَاعْلَمْ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ ترجمہ: علم رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: إِلاَّ مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ترجمہ: وہی کامیاب ہوں گے جو (کلمہ )حق کی گواہی اسے سمجھتے ہوئے دیتے ہیں۔
جبکہ اگر کوئی شخص اس کلمہ کو سمجھے بغیر اور اس کے تقاضوں پر عمل کیے بغیر پڑھتا ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، اس پر سب کا اجماع ہے۔" ختم شد
" تیسیر العزیز الحمید" (ص 51)
تاہم اس کلمہ کا معنی اور اس کے تقاضوں کے بارے میں معرفت اجمالی طور پر جاننا ہی کافی ہے، تفصیلی طور پر جاننا ضروری نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں ایسی کوئی حدیث نہیں ملتی کہ آپ نے ہر نو مسلم کو یہ تمام تر تفصیلات اور شرائط بتلائی ہوں جو کہ آج کل کتابوں میں موجود ہیں۔
چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات مسلمہ ہے کہ ہر شخص پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر اجمالاً ایمان لانا ضروری ہے، اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی تفصیلات جاننا فرض کفایہ ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا حصہ ہیں، تدبر قرآن میں شامل ہیں، یہ کتاب و حکمت کا علم بھی ہیں، یہ ذکر کا تحفظ بھی ہیں اور خیر کی دعوت بھی، اسی طرح یہ دونوں چیزیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہیں، اور سبیل رب العالمین کی دعوت بھی، اسی کو قرآن کریم نے مجادلہ بطریق احسن قرار دیا ہے۔ یہ اور اس کے علاوہ بھی دیگر اہل ایمان پر واجب تمام واجبات فرض کفایہ ہیں۔" ختم شد
"درء تعارض العقل والنقل" (1 / 51)
تاہم ہر مسلمان پر ضروری نہیں ہے کہ ان شرائط کو یاد بھی کرے، اگر کسی کو یہ شرائط یاد نہ ہوں تو اس سے اس کے ایمان میں کوئی نقص پیدا نہیں ہو گا، کیونکہ مطلوب تو یہ ہے کہ ان شرائط پر عمل کیا جائے اور ایمان صحیح انداز سے لائیں۔
مذکورہ بات ایسی ہے کہ اگر کوئی شخص عامی مسلمان بھی ہے تو ان پر عمل پیرا ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو، اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر اس کا دل کار بند ہو، شرعی نصوص کا احترام کرتا ہو، اور جس قدر اللہ تعالی نے استطاعت دی ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہو۔
الشیخ حافظ حکمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص محض لا الہ الا اللہ کہہ دے اور اس کی ساتوں شرائط مکمل نہ کرے، شرائط مکمل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان کے تقاضوں پر عمل کرے، اور کسی بھی ایسی سرگرمی میں ملوث نہ ہو جو کلمہ توحید کے منافی ہو۔
یہاں شرائط کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ : کلمے کے حروف کی تعداد یاد کرے، اسے زبانی رٹا لگائے؛ کیونکہ بہت سے ایسے عام افراد مل جائیں گے جن میں یہ تمام شرائط بڑے احسن انداز میں موجود ہیں ، لیکن اگر اسے کہا جائے کہ کلمہ توحید کے حروف گن کر بتلاؤ ، تو شاید شمار نہ کر پائے۔
اور کتنے ہی ایسے لوگ بھی ہیں جو کلمہ توحید کے حروف کے بارے میں تیر بہ ہدف جواب دیں گے، لیکن عملی طور پر بہت سے ایسے کام کر جائیں گے جو کلمہ توحید کے منافی ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمل کی توفیق اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہی ہے۔" ختم شد
"معارج القبول" (2 / 418)
اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تمام مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے کلمہ توحید ثابت کر دکھائیں، تو جس وقت بھی کسی مسلمان میں ان شرائط کا معنی اور مفہوم پایا جائے گا تو وہ مسلمان ہے، اس کی جان اور مال کو مکمل تحفظ حاصل ہے چاہے اسے ان شرائط کی تفصیلی طور پر علم نہ بھی ہو؛ کیونکہ اصل مقصود تو حق بات کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرنا ہے اگرچہ تفصیلات کا علم نہ بھی ہو۔" ختم شد
"مجموع فتاوى الشيخ ابن باز" (7 / 58)
تاہم اتنا ہے کہ ان شرائط کے بارے میں علم رکھنا فرض کفایہ ہے، اس لیے پوری امت میں ایسے اہل علم کا ہونا ضروری ہے جنہیں یہ شرائط معلوم ہوں اور لوگوں کو سکھائیں، فرض کفایہ کا یہ علم بھی تبلیغ اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی نشر و اشاعت ہے، جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی مندرجہ بالا گفتگو میں اس چیز کا تذکرہ موجود ہے۔
اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"فرض عین کے بارے میں یہ ہے کہ یہ ہر شخص کی صلاحیت ، ضرورت اور معرفت کے مطابق کم زیادہ ہوتا رہتا ہے، اسی طرح کسی معین شخص پر کیا چیز واجب ہے اس کی وجہ سے بھی فرض عین میں تفاوت پیدا ہوتا ہے، چنانچہ ذہین فطین شخص کے لیے جو چیزیں سمجھنا ضروری ہے وہ عامی اور کند ذہن شخص کے لیے سمجھنا ضروری نہیں ہے۔ اسی طرح جس شخص نے شرعی نصوص سن کر سمجھ لیا تو اس کی تفصیلات جاننا اس پر لازمی نہیں ہے جس نے اس کی تفصیلات نہیں سنیں، ایسے ہی مفتی، محدث اور مناظر پر جو چیز واجب ہوتی ہے وہ دیگر عامی لوگوں پر واجب نہیں ہو گی" ختم شد
"درء تعارض العقل والنقل" (1 / 52)
اللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب