ہمارے ہاں مصر میں ماہ رمضان کے دوران رمضان کی مناسبت سے کچھ مخصوص پکوان تیار کیے جاتے ہیں، مثلاً: کنافہ، قطایف، قمر الدین، خشک میوے، اور یامیش وغیرہ، تو ہمارے علاقے میں ایک زیر تعلیم لڑکے کا کہنا ہے کہ عبادت کے اس مہینے کو ان کھانوں کے ساتھ مختص کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ عادات کو ماہ عبادت سے منسوب کریں تو وہ بدعت بن جاتی ہے، اور ویسے بھی ان کھانوں کے کھانے سے روزے دار کو کسی قسم کی معاونت حاصل نہیں ہوتی تو ان پکوانوں کا شرعی اعتبار سے رمضان سے ویسے ہی تعلق نہیں تھا ، حسی طور پر بھی کوئی تعلق باقی نہیں رہتا، اس بنا پر اس کا کہنا ہے کہ: ان پکوانوں کو رمضان میں تناول کرنا حرام ہے، باقی مہینوں میں آپ انہیں تناول کر سکتے ہیں، اس کا دعوی ہے کہ یہ بات مصر کے کسی عالم دین نے کہی ہے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
ماہ رمضان میں مخصوص پکوان تیار کرنے کا حکم
سوال: 292645
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
لوگ ماہ رمضان میں مخصوص قسم کے میٹھے یا نمکین کھانے تیار کرنے کی عادت بنا لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ان کا یہ عمل بدعت میں شامل نہیں ہوتا؛ کیونکہ لوگ اس کو عبادت کا درجہ نہیں دیتے کہ یہ مخصوص کھانے تیار کرنے پر انہیں اللہ کا قرب حاصل ہو گا، بلکہ وہ تو اپنی عادت کے اعتبار سے ان چیزوں کو تیار کرتے ہیں۔
بدعت یہ ہے کہ دین میں کوئی نیا کام ایجاد کیا جائے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص ہمارے اس دین میں کوئی نیا کام ایجاد کرے جو اس میں پہلے نہیں تھا تو وہ مردود ہے)اس حدیث کو امام بخاری: (2697) اور مسلم : (1718)نے روایت کیا ہے۔
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا: (جو کوئی شخص ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے) مسلم: (1718)
امام شاطبی رحمہ اللہ کے مطابق دین میں اضافہ کی جانے والی بدعت یہ ہے کہ: "دین میں ایجاد کردہ ایسا نیا طریقہ جو شریعت کے مد مقابل ہو، اور اس پر عمل پیرا شخص اسی مقصد سے عمل کرے جو شرعی طریقے کا ہوتا ہے۔۔۔اس کی مثال ایک یہ بھی ہے: کسی بھی معین عبادت کی ایسے مخصوص وقت پر پابندی کرنا جس کی شریعت میں کوئی خصوصیت نہ ہو، مثلاً: نصف شعبان کے دن روزہ رکھنا اور رات کو قیام کرنا۔" ختم شد
"الاعتصام" (1/ 51)
جبکہ مخصوص رسم و رواج یا عادات کی مخصوص اوقات میں پابندی بدعت کے زمرے میں نہیں آتی۔
جیسے کہ صحیح بخاری: (5403) میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: " ہمیں جمعہ کے دن بڑی خوشی ہوتی تھی کیونکہ ہمارے ہاں ایک بوڑھی خاتون تھیں جو چقندر کی جڑیں لے کر ہنڈیا میں پکاتیں اوپر سے جو کے دانے اس میں ڈال دیتی تھیں۔ جب ہم نماز جمعہ سے فارغ ہوتے اور اس سے ملنے کے لیے جاتے تو وہ ہمارے سامنے یہ کھانا رکھ دیتی تھیں ہمیں اس وجہ سے جمعہ کے دن بڑی خوشی ہوتی تھی۔ اور ہم جمعہ کے بعد ہی کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے۔ اللہ کی قسم ! اس پکوان میں نہ چربی ہوتی اور نہ ہی چکناہٹ"
اب اس حدیث میں ہے کہ ایک صحابیہ ان کے لئے یہ کھانا تیار کرتی تھیں، اور خصوصاً جمعہ کے دن ہی تیار کرتیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام جمعہ کے دن کا انتظار کیا کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے کہ انہیں جمعہ کے دن اس خاتون کے پاس کھانے کو یہ پکوان ملے گا!!
تو کیا اب اسے یہ کہہ دیا جائے گا کہ یہ بدعت ہے؟!!
یا پھر یہ بتلائیں کہ: رمضان میں مذکورہ پکوان بنانے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام کی ہر جمعہ کے دن کی اس عادت میں کیا فرق ہے؟!
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر نت نئی ایجادات کے بارے میں جو کہا جا رہا ہے کہ یہ بدعت ہیں؛ تو پھر ہمیں ہر وہ چیز بدعت شمار کرنی پڑے گی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے زمانے میں نہیں ملتی، چاہے اس کا تعلق کھانے ، پینے، لباس، سواری سمیت زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو!!
تو یہ بات انتہائی سطحی اور دین اسلام کے اصولوں اور مقاصد سے متعلق جہل مرکب کی دلیل ہو گی۔ بدعت کی وضاحت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بالکل واضح ہے، کسی بھی صاحب شعور اور ذی عقل شخص کے لئے اس میں ذرہ بھی ابہام نہیں ہے۔
صاحب بصیرت اور اہل دانش سے یہ بات بالکل بھی مخفی نہیں ہے کہ حدیث مبارکہ میں نت نئی مردود چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جنہیں دین میں اضافہ کرتے ہوئے ایجاد کیا جائے، مثلاً: دین میں کوئی نئی عبادت شامل کی جائے، یا کسی عبادت کو کرنے کا ایسا طریقہ اپنایا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں اپنایا" ختم شد
"فتاوى الشيخ محمد بن إبراهيم" (2/ 128)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"عادت اور عبادت میں فرق ہوتا ہے:
عبادت: وہ ہوتی ہے جسے کرنے کا حکم اللہ تعالی نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حصولِ ثواب یا قربِ الہی پانے کے لئے دیا ہو۔
جبکہ عادت [یعنی رسم و رواج] اسے کہتے جس کے لوگ عادی ہو چکے ہوں، چاہے ان کا تعلق کھانے، پینے، رہنے، پہننے، سواری کرنے اور لین دین سمیت انہی جیسے زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو۔
یہاں عبادت اور عادت میں ایک اور فرق بھی ہے کہ: عبادات میں اصل بنیادی اصول ممانعت اور تحریم کا ہے، یہاں تک کہ کوئی دلیل ملے اور اس سے پتہ چلے کہ یہ کام عبادت ہے؛ اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے: أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ الله ترجمہ: کیا ان کے شریک ہیں جو ان کے لئے شریعت میں ایسی چیزیں شامل کریں جن کی اللہ تعالی نے اجازت ہی نہیں دی۔[الشوری: 21] جبکہ عادات میں بنیادی اصول حلت اور اجازت کا ہے، یہاں تک کہ کوئی دلیل ملے جو اس کو منع اور حرام قرار دے۔
اس بنا پر اگر لوگوں کے رسم و رواج میں کوئی چیز مشہور ہو جائے ، اور کچھ لوگ آ کر انہیں کہیں: یہ تو حرام ہے! تو ایسے شخص سے حرام ہونے کی دلیل مانگی جائے گی، اسے کہا جائے گا کہ : دلیل دو کہ یہ حرام ہے!
جبکہ عبادات کے متعلق یہ ہے کہ : اگر کسی شخص کو کہا جائے: یہ عبادت بدعت ہے! تو اسے کہا جائے گا کہ بدعت نہیں ہے، تو ہم اسے کہیں گے کہ : اس بات کی دلیل لاؤ کہ یہ بدعت نہیں ہے؛ کیونکہ عبادات میں اصل ممانعت ہے، یہاں تک کہ کوئی دلیل اس کے شرعی ہونے کی مل جائے۔" ختم شد
ماخوذ از: "لقاء الباب المفتوح" (72 / 2)
ایک اور مقام پر ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"بدعت کے متعلق شرعی ضابطہ یہ ہے: اللہ کی عبادت ایسے طریقے سے کی جائے جو اللہ تعالی نے مقرر نہیں فرمایا۔
آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں: اللہ کی عبادت ایسے طریقے سے کی جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ، اور آپ کے خلفائے راشدین کا طریقہ نہ ہو۔
لہذا جو شخص بھی اللہ تعالی کی عبادت ایسے طریقے سے کرتا ہے جس کی اجازت شریعت میں نہیں ہے، یا وہ طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ نہیں تھا نہ ہی وہ خلفائے راشدین کا طریقہ کار تھا، تو وہ شخص بدعتی ہے، چاہے اس کا عمل اللہ تعالی کے اسما و صفات سے تعلق رکھتا ہو یا پھر اس کے عمل کا تعلق شرعی احکام سے ہو۔
جبکہ رسم و رواج سے تعلق رکھنے والے امور کو دین میں بدعت نہیں کہا جاتا، اگرچہ انہیں لغوی اعتبار سے بدعت کہا جاتا ہے، لیکن یہ شرعی طور پر بدعت نہیں ہے، اور نہ ہی ان سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں خبردار کیا ہے" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (2 / 292)
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب